Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

درزی کا ایک مدعی تُرک کے کپڑے سے ٹکڑے چرانا۔ دفترششم

رومی

درزی کا ایک مدعی تُرک کے کپڑے سے ٹکڑے چرانا۔ دفترششم

رومی

MORE BYرومی

    دلچسپ معلومات

    ترجمہ : مرزا نظام شاہ لبیب

    تم نے نہیں سنا کہ کوئی شیریں گفتار ایک رات یاروں میں بیٹھا درزیوں کی شکایت کر رہاتھا اور لوگوں کو اس گروہ کی چوریوں کے قصّے سنا رہاتھا۔ اس نے اچھا خاصا درزی نامہ پڑھ ڈالا اور خلقت اس کے اطراف جمع ہوکر سنتی رہی۔ سننے والوں کو جس قدر دلچسپی ہو رہی تھی اسی قدر وہ بھی مزے لے لے کر بیان کر رہا تھا بلکہ سراپا حکایت بن گیا تھا۔ جب اس نے درزیوں کی بہت سی چوریوں کے حالات سنائے کہ یہ مکّار کس کس طرح لوگوں کو ٹھگتے اور نقصان پہنچاتے ہیں تو سننے والوں میں سے ملکِ خطا کا ایک ترک ان کی بدمعاشیوں پر بالکل آپے سے باہر ہوگیا۔

    اس نے پوچھا کہ اے داستان گو! یہ تو بتا کہ تمہارے شہر میں کون سا درزی مکر و دغا میں سب کا استاد ہے؟ اس نے کہا کہ ایک درزی پورشش نامی بڑا زہر کا بجھا ہوا ہے اور ہاتھ کی صفائی میں گاہک کا قاتل ہے۔ ترک نے کہا کہ میں شرط کرتا ہوں کہ چاہے وہ کتنے ہی بہانے کرے وہ میرے کپڑے میں سے ایک تار بھی نہ لے سکے گا۔ لوگوں نے کہا ارے بھائی تجھ سے زیادہ ہوشیار لوگ اس سے مات کھاچکے ہیں۔ تو اپنی عقل پر دھوکا نہ کھا، کہیں، تو اس کے چال چکّر میں آکر بالکل لٹ نہ جائے۔ اب تو ترک بپھر گیا اور شرط کرکے اپنا مال گروی رکھا اور کہنے لگا کہ اجی کیا نیااور کیا پرانا مجھ سے وہ کچھ چرا نہ سکے گا؟ شہہ دینے والوں نے اور بھی ترک کو بے آپے کردیا اور اس نے بھی گھوڑا گروی رکھ کر شرط لگائی کہ اگر وہ درزی میرا ذرا سا بھی کپڑا چرا لے تو یہ تازی گھوڑا ہار دوں گا۔ اگر نہیں چرا سکا تو تم کو ایسا ہی گھوڑا میرے حوالے کرنا پڑے گا۔ غرض شرط طے ہوگئی اور ترک کو مارے پیچ و تاب کے رات بھر نیند نہیں آئی اور اسی کے خیال میں الجھتا رہا۔ صبح ہوتے ہی ایک اطلس کا کپڑا بغل میں دبایا اور بازار میں اس دغاباز کی دکان پر پہنچا۔

    درزی نے جو اس نو وارد گاہک کو دیکھا تو بہت ادب سے کھڑے ہوکر سلام کیا اور خوش آمدید کہی۔ ترک کے مرتبے سے کہیں زیادہ تعظیم سے پیش آیا یہاں تک کہ ترک کے دل میں ایک قسم کی مروّت پیدا ہوگئی اور اس نے اپنی استنبولی اطلس اس کے آگے رکھ دی اور کہا کہ اس اطلس کی ایک قبا قطع کر جو میدانِ جنگ میں پہننے کے لائق ہو۔ اوپر کا حصّہ تنگ ہوکر جسم پر پھنسا ہوا رہے اور نچلا حصہ ذرا کشادہ رہے اور ایسا کہ پیروں میں دبنے نہ پائے۔ درزی نے دونوں آنکھوں اور سینے پر ہاتھ رکھے عرض کی کہ سرکار میں ہر طرح کی خدمت کو حاضر ہوں۔ کپڑے کو ناپا اور قطع کرنے کے لیے جگہ جگہ نشان لگائے اور ساتھ ساتھ میٹھی میٹھی باتیں کرتا رہا۔ بڑے بڑے امیروں کے واقعات اور ان کی بخشش اور انعام اور بخیلوں کے قصّے بیچ بیچ میں کہتا گیا۔ انہی حکایتوں میں ایک قصہ ایسا ہنسانے والا سنایا کہ وہ ترک ہنستے ہنستے لوٹ گیا۔ جب وہ اس داستان پر ہنسنے لگا تو اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں اور بھی بند ہوگئیں۔ درزی نے جھٹ ایک ٹکڑا کپڑا کا چرا کر ران کے نیچے اس طرح دبا دیا کہ سوا خدا کے اسے کوئی نہ دیکھ سکا اور خدا اگر چہ سب چالاکیاں دیکھتا ہے مگر اس کی صفت تو ستّاری ہے۔

    البتہ اگر حد سے زیادہ ہوجائے تو بھانڈا پھوڑ دیتا ہے۔ غرض داستان کے مزے میں وہ ترک اپنے اصلی قصد اور دعوے کو بھول گیا۔ کدھر کی اطلس کہاں کا دعویٰ اور کیسی شرط ۔ وہ ٹھٹھے اور مذاق میں سب سے غافل ہوگیا اور درزی کی خوشامد کرنے لگا کہ خدا کے واسطے ایک مذاق کا قصہ اور سناؤ اس سے میرا جی بہل رہاہے۔ درزی نے ایک بے اختیار کردینے والا قصہ سنایا کہ وہ مارے قہقہوں کے چست ہوگیا۔ درزی نے بڑی صفائی سے اطلس کا ایک اور ٹکڑا کتر کر نیفے میں چھپا لیا اور ترک تو ہنسی میں ہی دیوانہ ہورہاتھا اور اسے ذرا خبر نہ ہوئی۔ اسی طرح تیسری دفعہ بھی اس ترک خطائی نے درخواست کی کہ برائے خدا ایک دل لگی کا قصّہ اور سناؤ۔ اس نے پھر ایک قصہ سنایا کہ ترک پھڑک اٹھا اور بالکل درزی کاشکار ہوگیا۔ ترک کی آنکھیں بند، عقل رخصت اور ہوش حواس غائب، مارے قہقہوں کے لوٹا جاتاتھا۔

    اب کے تیسری دفعہ پھر اس قبا کے کپڑے میں سے ایک پٹی درزی نے چرالی کیوں کہ ترک کی ہنسی کی وجہ سے چرانے کی گنجایش کافی مل گئی تھی۔ جب چوتھی مرتبہ اس ترک نے درزی استاد سے دل لگی کا فسانہ سنا نے کی خواہش کی تو درزی کو اس ترک کے حال پر رحم آگیا اور کہنے لگا کہ سرکار! بس اب دل لگی چھوڑو۔ اگر اور قصہ سناؤں گا تو آپ کی عمر بھر حسرت رہ جائےگی۔

    اب اس قصّے کا نتیجہ سن! او بے خوف توہی ہے۔ اور یہ عیار دنیا درزی ہے جو اطلس کی قبا تقویٰ اور نیکی کے لئے تجھے سلوانی تھی وہ مذاق اور قہقہوں میں برباد ہوگئی۔ اطلس تیری عمر ہے۔ مذاق اور قہقہہ نفسانی جذبات ہیں۔ دن رات قینچی ہیں اور دل لگی کی رغبت تیری غفلت ہے۔ گھوڑا تیرا ایمان ہے اور شیطان گھات میں لگا ہوا ہے۔ لہٰذا اپنے ہوش وحواس ٹھیک کر اور افسانے کے ظاہر کو چھوڑ۔ تیری عمر کی اطلس کو زمانے کی قینچی سے مکّار درزی ٹکڑے ٹکڑے کر کے چرائے لیے جارہا ہے۔

    مأخذ :
    • کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 209)
    • مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے