شاہی منادی سن کر دلقک مسخرے کا گاؤں سے شہر کو دوڑنا۔ دفترششم
دلچسپ معلومات
ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب
بادشاہِ ترمذ کے پاس ایک مسخرہ دلقک بادشاہ کا بہت چہیتا تھا۔ ایک بار رخصت لے کر اپنے گاؤں گیا۔ اسی زمانے میں بادشاہ کو شہر سمرقند میں ایک اہم کام پیش آیا۔ بادشاہ نے منادی کرائی کہ جو شخص پانچ روز میں سمر قند میں جاکر جواب باصواب لے آئے گا میں اس قدر دولت بخشوں گا کہ نہال ہوجائے گا۔ اتفاق سے دلقک مسخرے نے بھی اپنے گاؤں میں بیٹھے ہوئے یہ منادی سنی تو وہ فوراً سوار ہوا اور ترمذ کو مارا مار پہنچا۔ اس قدر تیزی سے منزل طے کی کہ راستے میں دو گھوڑے مرگئے۔راستے کے گرد و غبار میں اٹاہوا، بالکل خلاف اوقات دربارشاہ میں داخل ہوا۔ سارے اہلِ دربار میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں اور بادشاہ کو بھی طرح طرح کے گمان ہونے لگے۔ شہر کے خاص و عام بھی پریشان ہوگئے کہ الٰہی نہ جانے اس شیخ پر کیا پریشانی اور بلا آن پڑی ہے۔ یا تو کوئی زبردست دشمن ہماری طرف بڑھا آرہا ہے یا پردۂ غیب سے کوئی مہلک بلا آنے والی ہے کہ دلقک مسخرہ اپنے گاؤں سے اس قدر مارا مار آیا ہے کہ راستے میں قیمتی گھوڑے تک مرگئے ۔ بادشاہ کے محل پر مخلوق جمع ہوگئی تاکہ معلوم کرے کہ دلقک مسخرہ اس قدر تیزی سے کیوں آیاہے۔ اس کی جلدی، گھبراہٹ اور کوشش کو دیکھ کر شہرِ ترمذ کی خلقت میں ایک ہلکم مچ گئی۔ کوئی دونوں ہاتھ زانووں پر ماررہاتھا اور کوئی مارے وہم کے واویلاکررہا تھا۔ اس عام بے چینی اور آنے والی مصیبت کے وہم سے ہر دل سو سو طرح کے اندیشوں میں مبتلا تھا۔ ہر شخص اپنے قیاس کے مطابق نئی فال لیتاتھا۔
الغرض دلقک مسخرے نے بادشاہ سے ملنا چاہا۔ چنانچہ بادشاہ نے فوراً باریاب کیا۔ باہر جو بھی اس مسخرے سے حال پوچھتا تھا وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر خاموشی کا اشارہ کرتاتھا۔اس کی اس پردہ داری سے لوگوں کا وہم اور بڑھ گیا اور سب حیران و ششدر تھے کہ نہ جانے کیا اہم واقعہ ہے۔
آخربادشاہ کے سامنے حاضر ہوا اور بادشاہ نے دریافت کیا کہ کیا بات ہے جلدی بیان کر، دلقک مسخرے نے اشارے سے عرض کیا کہ اے بادشاہ ذرا ٹھہرجا تاکہ میرا سانس قابو میں آجائے۔ ذرا میرے ہوش وحواس ٹھیک ہوں کہ میں ایک عجیب حالت میں گرفتار ہوں۔ گھنٹہ بھر تک بادشاہ منتظر رہا یہاں تک کہ طرح طرح کے وسوسوں سے بادشاہ کا حلق اور منہ کڑوا ہوگیا۔ بادشاہ نے دلقک کو اس حال میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ ہمیشہ قسم قسم کے لطیفے اور مذاق تراشا کرتاتھا اور بادشاہ کو خوش رکھتا۔ وہ بھرے جلسے میں اس قدر ہنستا تھا کہ بادشاہ دونوں ہاتھوں سے پیٹ پکڑ لیتاتھا۔ باوجود اس ک آج یہ حال ہے کہ چہرہ بالکل غمگین اور ہاتھ منہ پر رکھ کر بادشاہ کو چپ رہنے کا اشارہ کرتا ہے۔ ان دنوں خود بادشاہ کے دل میں بھی ایک کھٹکا لگا ہواتھا کیوں کہ خرم شاہ بہت خوں ریز بادشاہ تھا۔ اس کا دارالسلطنت سمر قند تھا اور ایک بدتمیز وزیر اس کا مشیر کار ہوگیاتھا۔
اس بدبخت نے اس طرف کے کئی بادشاہوں کو حیلے بہانے سے اور کہیں جبراً لشکر کشی کر کے مروا ڈالا تھا۔ بادشاہِ ترمذ بھی خرم شاہ سے خوف زدہ رہتا تھا۔ دلقک کی ان حرکتوں سے اس خوف میں اور پختگی پیدا ہوگئی بادشاہ نے پوچھا کہ جلد بیان کر کہ اصلی بات کیا ہے۔ تیری اس قدر گھبراہٹ اور خوف کس وجہ سے ہے؟ آخر دلقک نے ہاتھ باندھ کر عرض کی کہ میں نے گاؤں میں سنا کہ بادشاہ نے ہر طرف یہ منادی کرائی ہے کہ ایسا آدمی چاہئے جو ہمارا فرستادہ بن کر تین روز میں سمر قند جا پہنچے۔ جب وہ پیغام کا جوابِ باصواب لے آئے گا تو اس کو دولت بے قیاس ملے گی۔ اس منادی کو سن کر اے بادشاہ میں آپ کے حضور میں اس لیے فوراً حاضر ہوا ہوں کہ عرض کروں کہ مجھ میں تو یہ تاب و تواں نہیں اور ایسی تیزی اور پھرتی مجھ سے تو ممکن نہیں۔
لہٰذا مجھ سے اس کام کے انجام دینے کی امید نہ رکھیئے، بادشاہ نے کہا ارے تیری اس مستعدی پر لعنت کہ سارے شہر میں فکر وتشویش پھیل گئی۔ ارے بے وقوف تونے اتنی سی بات کے لیے ساری چرا گاہ میں آگ لگادی۔
- کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 218)
- مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.