صدر جہاں کا ایسے سائل کو کچھ نہ دینا جو زبان سے مانگے۔ دفترششم
دلچسپ معلومات
ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب
شہرِ بخارا میں صدرِجہاں کی داد و دہش مشہور تھی۔ وہ بے حد و بے حساب دیتے تھے اور صبح سے شام تک ان کے دریائے فیض سے روپئے اشرفیاں برستی رہتی تھیں۔ کاغذ کے پرزوں میں اشرفیاں لپٹی رہتی تھیں، جب تک وہ ختم نہ ہوجائیں اس وقت تک برابر دیتے رہتے تھے۔ صدرِ جہاں کا حال سورج اور چاند کا سا تھا کہ جس قدر نور کی چمک ان کو حاصل ہوتی وہ سب دنیا پر تقسیم کردیتے۔ خاک کو زر بخشنے والا کون ہے؟ آفتاب ہی تو ہے۔ سونا کان میں سے دمکتا ہے اور خزانہ اگر کہیں گڑا ہو تو سیاہ ہوجاتا ہے۔
ہر روز کے لئے ایک جماعت مقرر تھی تاکہ کوئی گروہ محروم نہ رہے۔ ایک دن مصیبت زدوں کے لئے، دوسرا دن بیواؤں کے لئے، تیسرا دن مفلس فقیروں اور گوشہ نشینوں کے لیے ،چوتھا دن محتاج ملا کے لئے، پانچواں دن عام مسکینوں کے لئے ،چھٹا دن قرض داروں کے لئے، ساتواں دن یتیم بچوں کے لئے ،آٹھوا دن قیدیوں کے لئے، نواں دن مسافروں کے لئے، دسواں دن غلاموں کے لئے، مگر شرط یہی تھی کہ کوئی شخص زبان سے کچھ نہ مانگے۔ بلکہ مفلس چپ چاپ اس کے راستے میں صف باندھے دیوار کی طرح کھڑے رہیں۔ جو کوئی اتفاقاً سوال کردیتا تو اس جرم میں اس کو کچھ نہ دیتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک دن ایک بڈھے نے کہا کہ بھوکا ہوں کچھ زکوٰۃ دے۔ لوگوں نے ہر چند اس کو مانگنے سے منع کیا لیکن وہ اڑ گیا۔
صدرِ جہاں نے کہا کہ تھو ڑا بے شرم بڈھا ہے۔ اس بڈھے نے جواب دیا کہ مجھ سے زیادہ بے شرم تو ہے کہ اس جہان کو خوب کھاگیا اور لالچ کررہا ہے کہ اس جہان کو نعمتوں کے ساتھ دوسرے جہان کی نعمتوں کو بھی حاصل کرے۔ صدرِ جہاں کو بہت ہنسی آئی۔ اس بڈھے کو بہت دولت دی اور وہ اکیلا لے گیا۔ اس بڈھے کے سوا اور کسی سوال کرنے والے کو کبھی کچھ نہ دیا۔
اب سنئے کہ ملاّؤں کی باری کے دن اتفاقاً ایک ملّا مارے حرص کے چلّا اٹھا۔ لہٰذا اسے کچھ نہ ملا۔ وہ ہر چند رویا دھویا کوی فائدہ نہ ہوا۔ طرح طرح کے سوال کئے مگر صدرِ جہان کا دل نہ پسیجا۔ دوسرے دن وہی شخص پاؤں کو پٹیاں لپیٹ کر بیماروں کی صف میں انجان جابیٹھا۔ اس نے پنڈلیوں پر چاروں طرف کھپچیاں باندھ لیں تاکہ گمان ہو کہ اس کے پیر ٹوٹ گئے ہیں، مگر صدرِجہاں نے اسے دیکھ کر پہچان لیا اور کچھ نہ دیا۔ تیسرے دن ایک لبادے میں منہ لپیٹا اور اندھا بن کر اندھوں کی صف میں جا کھڑا ہوا۔ جب بھی صدرِ جہاں نے اسے پہچان لیا اور سوال کرنے کے جرم میں کچھ نہ دیا۔ جب ساری مکّاریاں کر کے عاجز آگیا تو عورتوں کی طرح ایک چادر سر پر اوڑھی اور بیواؤں کے بیچ میں جاکر بیٹھ گیا۔ سر جھکالیا اور ہاتھ چھپالئے۔ جب بھی صدرِ جہاں نے اسے پہچان کر کچھ نہ دیا۔ اس سے اس کے دل میں غم کی آگ بھڑک اٹھی۔ وہ کفن چور کے پاس سویرے ہی پہنچا اور فرمائش کی کہ مجھے ایک نمدے میں لپیٹ کر راستے کے کنارے جنازہ بنا کر رکھ دو۔ کسی سے کچھ نہ کہو۔ راہ تکتے ہوئے بیٹھے رہو۔ یہاں تک کہ صدرِ جہاں ادھر سے گزریں۔ ممکن ہے کہ وہ دیکھیں اور مردہ گمان کر کے تجہیز و تکفین کے لئے کچھ اشرفیاں تابوت میں ڈال دیں جو کچھ ملے گا اس میں آدھا تمہیں دوں گا۔ اس کفن چور فقیر نے ایساہی کیا کہ اس کو ایک نمدے میں لپیٹ کر راستےمیں رکھ دیا۔
حسبِ معمول صدرِ جہاں ادھر سے گزرے تو انہوں نے چند اشرفیاں اس نمدے پر ڈال دیں۔ ملّا نے گھبرا کر فوراً ہاتھ باہر نکالے کہ کہیں وہ کفن چور نہ اٹھالے اور خود ہی نہ اینٹھ لے۔ اس مردے نے فوراً نمدے سے دونوں ہاتھ باہر نکالے اور ساتھ ہی سر بھی باہر نکالا اور صدرِ جہاں سے مخاطب ہوکر کہا، اےدروازۂ کرم بند کرنے والے، دیکھا! آخر لے کر ہی چھوڑا۔ صدرِ جہاں نے جواب دیا کہ ارے مردود جب تک تو نہ مرا ہماری سرکار سے کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکا۔
- کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 227)
- مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.