ایک بادشاہ کا ملّا کو شراب پلانا۔ دفترششم
دلچسپ معلومات
ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب
ایک بادشاہ رنگ ریلیوں میں مصروف تھا کہ ایک ملا اس کے دروازے پر سے گزرا۔ حکم دیا کہ اس کو محفل میں کھینچ لاؤ اور زبردستی شراب پلاؤ۔ پس لوگ جبراً اس کو محفل میں کھینچ لائے اور وہ آکر سانپ کے زہر کی طرح بالکل ترش رو ہو بیٹھا۔ شراب پیش کی تو اس نے قبول نہ کی۔ اور بادشاہ اور ساقی دونوں سے آنکھ پھیر لی اور بگڑ کر کہا میں نے عمر بھر کبھی شراب نہیں پی۔ اس شراب پینے سے تو زہر پینا بہتر ہے۔ بجائے شراب کے میرے لئےزہر لادو۔ بادشاہ نے ساقی سے کہا کہ اے نیک قدم دیکھتا کیا ہے۔ ذرا اس کو بے تکلف تو کر۔ عقل پر بھی ایک پوشیدہ حاکم ہے اپنی حکمت سے آپے سے باہر کر دیتا ہے۔ ساقی نے ملا کے چند چانٹے لگائے اور کہا کہ خیر اسی میں ہے کہ شراب پیو! چانٹوں کے خوف سے وہ مصیبت زدہ فوراً شراب پی گیا۔ اب کیا تھا وہ مست و بے خود ہوکر ایسا خوش اور باغ کی طرح کھل گیا کہ بادشاہ کی مصاحبت اور مسخرا پن کرنے لگا۔
اسی حال میں پیشاب کے لیے گیا۔ شاہی بیت الخلا پر بھی ایک خوبصورت لونڈی مامور تھی۔ ملا نے جو اسے دیکھا تو شراب کے نشے میں اور بھی آپے سے باہر ہوگیا اور لگا اس لونڈی سے خرمستیاں کرنے، اس نے غل مچایا اور ادھر ملا کو واپس آنے میں دیر ہوئی تو بادشاہ خود ادھر گیا اور یہ دیکھ کر کہ ملا شرم و حیا ،زہدوتقویٰ سب کو چھوڑ کر خود اس کنیز سے دست درازی کر رہا ہے۔ سخت ناراض ہوا۔ ملا جلدی سے نکل کر پھر محفل میں آگیا اور فوراً شراب کا پیالہ ہاتھ میں لے لیا۔ بادشاہ دوزخ کی طرح آتشِ غضب و آتشِ انتقام سے بھڑکنے لگا اور ملا کے خون کا پیاسا ہوگیا۔ جب ملا نے دیکھا کہ بادشاہ کا چہرہ مارے غصے کے لال اور جام زہر کی طرح تلخ ہوگیا ہے تو اس نے ساقی کو للکارا کہ ’’ارے محفل گرم کرنے والے بیٹھا کیا دیکھ رہا ہے۔ اٹھ اور ذرا اس کو بے تکلف تو کردے!‘‘ بادشاہ ہنس پڑا اور کہا کہ اے شخص! میں تو بے تکلف ہوں، جا وہ چھوکری تجھے بخش دی۔
- کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 229)
- مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.