ایک شخص کا خواب دیکھ کر خزانے کی امید پر مصر کو جانا۔ دفترِششم
دلچسپ معلومات
ترجمہ : مرزا نظام شاہ لبیب
ایک شخص کو وراثت میں مالِ کثیر ہاتھ آیا۔ وہ سب کھاگیا اور خود ننگا رہ گیا۔ سچ ہے کہ میراث کا مال نہیں رہا کرتا۔ جس طرح دوسرے سے الگ ہوا اسی طرح یہاں بھی جدا ہوجاتا ہے۔ میراث پانے والے کو بھی ایسے مال کی قدر نہیں ہوتی جو بے محنت اور تکلیف ہاتھ آجاتا ہے۔ اے شخص تجھے بھی جان کی قدر اسی لیے نہیں ہے کہ حق نے تجھے مفت بخشی ہے۔
الغرض اس شخص کا نقد وجنس اور جائیداد سب قبضے سے نکل گئی اور الّوؤں کی طرح ویرانے میں رہنے لگا۔ اس نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی کہ تونے مجھے سروسامان دیاتھا وہ جاتا رہا۔ لہٰذا تو اب مجھے سروسامانِ زندگی عنایت کریا موت بھیج دے۔ اس دعا اور گِڑ گِڑاہٹ میں اس نے دونوں ہاتھ پیٹے۔ اس زبردست کو بے محنت زر کی طلب تھی لیکن وہ کون ہے جو خدا کی رحمت کے دروازے کو کھٹکھٹائے اور اس کی قبولیت میں سوبہاریں نہ پائے۔ اس نے رات کو خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ کہتا ہے کہ تجھے شہرِ مصر میں دولت ملے گی۔ تو مصر کو جا، وہاں تیرا کام بن جائے گا۔ خدا نے تیری گریہ و زاری کو قبول کیا ۔فلاں گاؤں میں ایک بڑا خزانہ ہے۔ اس کی تلاش میں تجھے مصر جانا ہوگا۔ فلاں بستی کے فلاں کوچے میں ایک خزانہ دفن ہے تو بغداد سے ہوتا ہوا فوراً مصر کو جا اور اسے حاصل کر۔
یہ خوش خبری سن کر کمرِ ہمت چست ہوگئی اور اسی امید پر کہ فرشتےنے خزانہ بتایا ہے، وہ شخص بغداد سے منزلیں طے کرتا ہوا مصر پہنچا۔ لیکن وہاں پہنچتے پہنچتے اس کے پاس پیسہ ٹکا کچھ نہ رہا اور ظالم پیٹ نے مجبور کیا کہ کسی سے سوال کرے۔ ہر چند شرم دامن پکڑتی تھی مگر بھوک نے بے حواس کرڈالا تھا۔ اپنے جی میں کہتا، بہتر ہے کہ رات کے وقت چھپتا چھپاتا باہر نکلوں تاکہ اندھیرے میں بھیک مانگنے سے شرم نہ آئے۔ نعرہ لگانے والے فقیر کی طرح دور سے صدا دوں تاکہ کچھ پیسہ مل جائے۔ اسی سوچ میں باہر نکلا اور چاروں طرف ہچکچاتا ہوا، پھرنے لگا۔ کبھی شرم اور اپنی قدیم عادت مانع آتی تھی اور کبھی بھوک دستِ سوال بڑھانے پر مجبور کرتی تھی۔ ایک پہر رات تک یہی حالت رہی کبھی قدم آگے بڑھتا اور کبھی پیچھے ہٹالتیا اور اپنے دل سے سوال کرتا کہ اب سوال کروں یا بھوکا پیاسا سو جاؤں۔ اتفاق سے اس زمانے میں اہلِ شہر چوروں سے سخت پریشان اور تکلیف زدہ تھے۔ راتیں اندھیری اور کوتوال شہر چوروں کی بڑٰ جستجو میں تھا یہاں تک کہ خلیفہ نے بھی حکم دے دیاتھا کہ جو شخص راتوں کو گشت لگاتا نظر آئے اگر میرا عزیز بھی ہو تو بھی اس کے ہاتھ کاٹ لو۔ اہلِ دربار نے بھی کوتوال پر طعنہ کیا تھا کہ تمہاری کوتوالی میں چور اس قدر زیادہ کیوں ہوگئے ہیں۔بادشاہ نے عتاب کیاتھا کہ ان بدمعاشوں کو گرفتار کرو ورنہ سب کی سزا تم کو ملے گی تاکہ اہلِ شہر اس آئے دن کی مصیبت سے نجات پائیں۔
غرض کوتوال تو غضب ناک تھاہی اس شخص کو جو رات میں اس طرح دبکتے اور چکّر لگاتے دیکھا تو پکڑ کر خوب پیٹا کہ بتا تو کون ہے؟ اس فقیر مسافر نے بے اختیار چیخنا چلّانا شروع کیا اور کہا کہ لللہ مجھے نہ مارو جو اصل حقیقت ہے وہ میں بیان کرتا ہوں۔ کوتوال نے ہاتھ روک کر کہا کہ اچھا تو بتا کہ تو اتنی رات کو باہر کیوں نکلا تھا۔ تو یہاں کا رہنے والا نہیں ہے تو کہیں دور کا رہنے والا بدمعاش معلوم ہوتا ہے۔ اس نے قسمیں کھا کر کہا کہ نہ میں چور ہوں نہ جیب کترا، نہ میں اٹھائی گیراہوں نہ خونی، میں تو اس شہر میں بہ حیثیت مسافر کے آیا ہوں اور بغداد کا رہنے والا ہوں۔ پھر اپنے خواب اور اس خزانے کا واقعہ بیان کردیا اور کوتوال کو بھی اس کی بات سچ معلوم ہوئی۔ اس کے قسمیں کھانے سے سچائی کی خوشبو آئی۔ کوتوال نے کہا کہ بے شک تو نہ چورہے نہ راہ زن بلکہ محض ایک خیال پر حرص ونادانی سے تونے اتنا دور دراز کا سفر اختیار کیا اب یہ سن کہ تجھے تو بغداد میں مصر کا خزانہ نظر آیا اور میں نے اسی مصر میں کئی بار یہ خواب دیکھا کہ بغداد میں ایک پوشیدہ خزانہ ہے اور فلاں موضع اور فلاں کوچے میں دفینہ ہے اور کوچے اور مکان کا نام اسی خزانے کے نام پر ہے بلکہ یہاں تک بھی بتایا گیا کہ مکان کے فلاں حصّے میں دبا ہے جا اور نکال لے۔ اے عزیز میں نے اپنے جی میں کہا کہ خزانہ تو خود میرے گھر میں ہے مجھے وہاں جانے کی کیا محتاجی ہے میں اپنے خزانے پر بیٹھا ہوا ہوں اور محتاجی کے مارے مراجاتا ہوں۔ کیوں کہ اپنے خزانے سے غافل اور خود چھپا ہوا ہوں۔
مسافر فقیر نے جو یہ خوش خبری سنی تو بے خود ہوگیا۔ اس کا سارا درد جاتارہا اور اپنے جی میں کہا کہ اس قدر لاتیں کھانے پر نعمت کا ملنا موقوف تھا۔ میری دکان میں تو خود آبِ حیواں موجود تھا پھر کوتوال سے کہا الحمدللہ عجیب وغریب دولت ہاتھ آئی وہ سب میرے وہم کا اندھا پن تھا کہ میں اپنے کو مفلس سمجھتا تھا مگر چاہے تم مجھے احمق کہو چاہئے عقل مند جو کچھ میرا دل چاہتاتھا وہ میں نے یہیں پایا۔
پھر وہ مصر سے بغداد کو سجود ورکوع کرتا اور حمدوثنا پڑھتا واپس ہوا۔ وہ سارے رستے حیران اور اس تعجّب سے بے خود رہا کہ دیکھو ہماری طلب کا رستہ کیاتھا اور روزی ہمیں کیا ملی۔ مجھے امید وار کدھرکا بنایا تھا اور عنایت و انعام کدھر سے عطا ہوا۔ اس میں کیا حکمت تھی کہ اس کانِ مراد نے مجھے اپنے گھر سے خوشی خوشی غلط راستے پر نکلوایا۔ میں جلدی جلدی گمراہی کی طرف دوڑ رہا تھا اور ہر آن مقصدِ حقیقی سے جدا ہورہاتھا۔ پھر اسی گمراہی کو خدا نے اپنے عین کرم سے ہدایت و مقصود تک پہنچنے کا وسیلہ بنادیا۔
- کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 230)
- مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.