Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

امیربخارا کے غلام کا فرار ہونا اور واپس آنا۔ دفترسوم

رومی

امیربخارا کے غلام کا فرار ہونا اور واپس آنا۔ دفترسوم

رومی

MORE BYرومی

    ایک عجیب قصہ سنو کہ صدرِ جہاں امیر بخارا کا ایک پروردہ غلام جس قدر اپنے آقا کو عزیز تھا اسی قدر خود اپنے آقا کا والہ و شیدا تھا۔ آقا نے بھی ترقی دے کر اسے کوتوال کے معزز عہدے پر سرفراز کردیاتھا۔ اتفاق سے کسی سنگین الزام کی تہمت لگی تو سزا اور بے آبروئی کے خوف سے فرار ہوگیا۔ دس برس تک اِدھر اُدھر مارا مارا پھرتا رہا۔ کبھی خراسان چل دیا ،کبھی قہستان جانکلا اور کبھی جنگل جنگل بھٹکتا پھرا۔ دس سائل کی جدائی کے بعد تاب نہ رہی اور صدرِ جہاں کا شوق از حد بڑھ گیا۔ اس کے دل نے کہا اب تو جدائی کی قوت نہیں ،بس اب وہیں چلوں اگر نافرمانی کی تھی تو اس سے توبہ کرکے پھر فرمانبرداری اختیار کروں۔ دفعۃً سامنے ہوجاؤں اور اس کے قدموں پر گر پڑوں اور عرض کروں کہ یہ جان حاضر ہے۔ چاہے زندہ کیجئے چاہے گو سفندِ قربانی کی طرح ذبح کردیجئے۔ دوسری جگہ زندگی کا بادشاہ بننے سے آپ کے قدموں میں مرنا بہتر ہے خواہ موت اختیاری سے ہو خواہ اضطراری سے لیکن بغیر آپ کے میری زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔

    لوگوں نے اس کو سمجھایا کہ تیرا اب بخارا جانا خطرے سے خالی نہیں مگر اس سے رہا نہ گیا اور گرتا پڑتا بخارا آپہنچا۔ وہاں جس کسی نے اسے دیکھا اور پہچانا اس سے یہی کہا کہ بادشاہ تجھ سے سخت ناراض ہے اور دیکھتے ہی تجھے جان سے مروا ڈالے گا۔ یہ کیا حماقت کی کہ موت کے پھندے سے نکل کر پھر اسی جال میں پھنسنے کے لیے آیا ہے۔

    اس نے کہا کہ میں مرضِ استسقا میں مبتلا ہوں مجھے پانی خود کھینچ رہا ہے۔ ہر چند میں جانتا ہوں کہ پانی ہی مجھے مارڈالے گا۔ چاہے پانی سے کتنی ہی تکلیف وصدمہ پہنچے استسقا کی بیماری والا پانی سے کبھی جدا نہیں ہوتا۔ چاہے میرے ہاتھ پیر سوج جائیں اور پیٹ پھول جائے مگر پانی کا عشق کبھی کم نہ ہوگا۔ اس سزا میں کہ میں اس سے د ور بھاگاتھا میں نے خود اپنے کو اس کی پھانسی کے ڈنڈے پر لٹکادیا ہے۔

    ٖغرض ہاتھ باندھے صدرِ جہاں کے حضور میں پہنچا۔ وہ عاشق آنکھوں سے آنسو بہاتا جاتھا اور بالکل بے خود تھا۔ ایک ہاتھ میں کفن اور دوسرے میں تیغ ساتھ ہی ساری مخلوق سراونچا کیے دیکھ رہی تھی کہ دیکھیے بادشاہ اس کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔آگ میں ڈلوا تا ہے یا پھانسی پر لٹکواتا ہے؟ جونہی اس کی نظر صدرِ جہاں پر پڑی گویا ا س کی جان تن سے نکل گئی ۔ تنِ لاغر خشک لکڑی کی طرح زمین پر گر پڑا جو تالو سے پیر کے ناخن تک بالکل سرد تھا۔ لوگوں نے بخور وگلاب سے بہتیرے جتن کیے لیکن اس نے نہ حرکت کی نہ کسی بات کا جواب دیا۔ جب بادشاہ نے اس کا زرد چہرہ دیکھا تو گھوڑے سے اُتر کر اس کے پاس آیا اور کہا کہ دوست کو ایساہی چست و چالاک عاشق چاہیے کہ جب معشوق جلوہ دکھائے تو عاشق زندہ نہ بچے۔ بے شک تو عاشقِ حق ہے اور حق وہی ہے کہ جہاں حق پیدا ہو وہاں تیری خودی باقی نہ رہے۔

    صدرِ جہاں کے دل میں اس کا یہ حال دیکھ کر محبت کی لہریں اٹھنے گلیں اس کو زمین سے اٹھا کر اپنی گود میں اس کا سر لے لیا اور چہرے پر آنسوؤں کی جھڑی برسانے لگا۔ بادشاہ نے اس کے کان میں آواز دی کہ اے دریوزہ گر! دامن پھیلا،یاں زر و جواہر نثار ہو رہاہے۔ تیری جان تو میرے فراق میں تڑپ رہی تھی، جب میں فراق کو دور کرنے آیا تو پھر کہاں غائب ہوگیا۔ اب ہوش میں آجا اور بے خودی کو دور کر۔ جب مژدۂ وصل سنائی دینے لگا تو مردے میں ہلکی ہلکی سی حرکت ہونے لگی۔ تھوڑی دیر میں خوشی خوشی اٹھ بیٹھا، تڑپ کر ایک دوبار صدقے ہوا اور سجدے میں گرپڑا۔ اس کا چہرہ پھول کی طرح کھل کر تازہ ہوگیا اور کیفیتِ وصال کی لذت میں ہجر کی قید سے آزاد ہوگیا اور عرض کرنے لگا کہ اے عنقائے حق! اے میری جان، خدا کا شکر ہے کہ آپ عظمت کی بلندی سے میرے پاس اتر آئے۔ پھر اپنی خطا اور بدنصیبی کا اقرار اور آقا کی جدائی کے صدمے بیان کر کے وہ کمزور اس قدر زار وقطار رویا کہ شریف ووضیع سب رونے لگے۔اس کے دل سے ایسی ہاؤ ہو بے اختیار نکلی کہ عورت مرد میدانِ قیامت کی طرح اس کے گرد ایک جگہ جمع ہوگئے اور ان پر بھی وہی حیرت اور گزشتہ کی یاد پر نالہ و زاری کی کیفیت طاری ہوگئی جو با زگشتہ کی کیفیت تھی۔

    اے عزیز! عشق دونوں عالم سے بیگانگی کا نام ہے۔ اس میں بہتر دیوانگیاں شامل ہیں اور اس کا مذہب بہتر فرقوں سے جدا ہے اور بادشاہوں کا تخت اس کے نزدیک اسیری ہے۔ عشق کا گویّا وجد وحال میں یہ گیت گاتا ہے۔ بندگی قید اور خدائی دردِ سر، پس عشق کیا ہے عدم کا دریا ہے۔ جس میں عقل کے ہاتھ پیر ٹوٹ جاتے ہیں۔ لو! اب تو بندگی اور بادشاہی کی حقیقت معلوم ہوئی۔ بس انہی دو پردوں میں عاشقی پوشیدہ ہے۔

    مأخذ :
    • کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 144)
    • مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے