شاہی مصاحب کا اپنے سفارشی سے رنجیدہ ہونا۔
دلچسپ معلومات
ترجمہ : مرزا نظام شاہ لبیب
ایک بادشاہ اپنے مصاحب پر ناراض ہوا اور چاہا کہ ایسی سزا دے کہ دل سے دھنواں نکلنے لگے۔ بادشاہ نے تلوار نیام سے سونت لی۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ دم مارے یا کوئی سفارش کر سکے۔ البتہ عمادالملک نامی ایک مصاحب زمین پر گر پڑا۔ اسی وقت بادشاہ نے غضب کی تلوار ہاتھ سے رکھ دی اور فرمایا کہ اگر دیو بھی ہے تو میں نے بخش دیا اور اگر شیطنت بھی کی ہے تو میں نے قطع نظر کی۔ جب تیرا قدم درمیان آگیا تو چاہے جرم کیسا ہی سخت ہو میں اس سے راضی ہوں۔
اب سنئے کہ وہ مصاحب جو موت کی مصیبت سے چھٹا محبّت کی بِنا پر خود اپنے سفارشی سے ناراض ہوگیا اور دیوار کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا تاکہ عمادالمک سے سلام وکلام ہی نہ ہونے پائے۔ وہ اپنے سفارشی سے جو اس قدر انجان ہوگیا تو لوگ افسوس کرنے لگے اور کہنے لگے کہ اگر یہ مجنوں نہ ہوتا تو ایسے شخص کی دوستی کیوں ترک کرتا جس نے اس کو دوبارہ زندہ کیا؟ ارے اس نے تو گردن پر رکھی ہوئی تلوار سے بچایاتھا۔ ایسے کے پاؤں کی خاک ہونا چاہئے تھے مگر یہ الٹا اینٹھ گیا اور ایسے شفیق دوست سے دشمنی اختیار کی۔ ایک ناصح نے اس کی خوب فضیحت کی کہ تو مہربانی کا ایسا بدلہ کیوں دے رہا ہے۔
اس نے کہا کہ بادشاہ پر جان تصدق ہے۔ میرے اور بادشاہ کے درمیان وہ کیوں سفارشی ہوا۔ سوا بادشاہ کے رحم کے مجھے کسی اور کا رحم درکار نہیں اور سوا بادشاہ کے کسی غیر کی پناہ مجھے نہیں چاہئے۔ میں نے تو غیر شاہ کی نفی کر رکھی ہے۔ وہ اگر ایک دفعہ میری گردن مارے تو ایسی ایسی ساٹھ جانیں بخش بھی دے گا۔ میرا فریضہ سر دینا اور بے نفسی سے رہنا ہے اور بادشاہ کا فریضہ سر بخشنا ہے۔ اس سر کے کیا کہنے جو شاہنشاہ کے ہاتھ سے کاٹا جائے اور پھٹکار ہے اس سرپر جو غیر کے آگے اپنی ضرورت لے جائے۔
- کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 164)
- مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.