ایک حکیم کا مور پر اعتراض کرنا جو اپنے پر آپ اکھیڑ رہا تھا۔ دفترپنجم
دلچسپ معلومات
ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب
ایک مور جنگل میں اپنے پر اکھیڑ رہاتھا۔ ایک حکیم بھی اس طرف سیر کرتا ہوا جانکلا۔ پوچھا کہ اے مور ! ایسے خوبصورت پر اور تو جڑوں سے اکھیڑے دیتا ہے۔ خود تیرے دل نے کیسے قبول کیا کہ ایسے نفیس لباس کو نوچ کھسوٹ کر کیچڑ میں پھینک دے؟ تیرے ایک ایک پر کو خوبصورتی کی وجہ سے حافظ لوگ تو قرآن شریف کی ترک بنا کر رکھتے ہیں اور مفید و خوش گوار ہوا کے لیے تیرے پروں کی پنکھیاں اور پنکھے بنائے جاتے ہیں۔ یہ کیسی ناشکری اور جسارت ہے؟ تو نہیں جانتا کہ تیرا نقاش کون ہے؟ یا جان بوجھ کر ہیکڑی کرتا ہے اور جان کر نئی وضع بناتا ہے؟
جب مورنے یہ نصیحت سنی تو حکیم کو غور سے دیکھا اور اس کے بعد چلّا چلّا کر رونے لگا۔ وہ مور ایسی پُردرد آواز سے رویا کہ سارے تماشائی رو پڑے اور جس نے پَر نوچنے کا سبب دریافت کیا تھا وہ بغیر جواب کے پشیمان ہوکر دیکھنے لگا کہ میں نے ناحق ہی اس سے پوچھا ،وہ پہلے ہی غم سے بھرا ہوا تھا میں نے اور چھیڑدیا۔ اس کی آنکھوں سے جو آنسو کا قطرہ زمین پر ٹپکتا تھا اس میں سو سو جواب موجود تھے۔ جب رو چکا تو کہا کہ جا تو ابھی رنگ و بو میں گرفتار ہے۔ یہ نہیں دیکھتا کہ ان ہی پروں کے لئے ہر طرف سے سینکڑوں بلاؤں کا نزول مجھ پر ہوتا ہے۔ کتنے بے رحم شکاری ہیں جو ان ہی پروں کی خاطر ہر طرف جال لگائے ہیں اور کتنے تیر انداز ہیں جو ان ہی پروں کے واسطے مجھ پر تیر چلاتے ہیں۔
چونکہ ایسی موت، ایسی آفت اورایسے فتنے سے اپنے کو بچائے رکھنے کی مجھ میں طاقت نہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ بدنما و بد شکل ہوجاؤں تاکہ اس پہاڑ کے دامن اور اس جنگل میں محفوظ رہوں۔ میرے نزدیک جان بال وپر سے ہزار درجہ بہتر ہے کیونکہ وہ باقی رہنے والی اور جسم فنا ہونے والا ہے۔ اےجوان یہ پر میرے غرور کا آلہ بن گئے ہیں اور غرور مغروروں کو سو بلاؤں میں مبتلا کرتا ہے۔ اے عزیز! سلامتی چاہتا ہے تو غرور کے اسباب کو ترک کردے۔
- کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 166)
- مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.