برق چمکی چمن والے دشمن ہوئے چار تنکے بجھانا غضب ہو گیا
برق چمکی چمن والے دشمن ہوئے چار تنکے بجھانا غضب ہو گیا
چند پھولوں میں اے ہم نشینو مرا آشیانہ بنانا غضب ہو گیا
پڑ گئے جا بجا دل پہ ناسور غم راہ الفت میں آنا غضب ہو گیا
کٹ رہی تھی بڑی پر سکوں زندگی ان سے نظریں ملانا غضب ہو گیا
تھی نہ جب تک مجھے دو جہاں کی خبر ان کے زانو پہ رکھے ہوئے تھا میں سر
میں جو سنبھالا تو کچھ مطمئن ہو گئے ہوش میں میرا آنا غضب ہو گیا
ہجر کی آگ سینے میں جلنے لگی آرزوؤں کی شمع پگھلنے لگی
زندگی غم کے سانچے میں ڈھلنے لگی راز الفت چھپانا غضب ہو گیا
میں نہ بہکا تھا جب یہ عالم رہا دور چلتا جام چلتا رہا
میں جو بہکا تو ساقی نے پینے نہ دی جھوم کر لڑکھڑانا غضب ہو گیا
میری ہستی بنی اور بگڑ بھی گئی ایک دنیا بسی اور اجڑ بھی گئی
دے گئے عمر بھر کو وہ داغ الم دو گھڑی مسکرانا غضب ہو گیا
ڈوبتا جا رہا تھا سفینہ مرا بحر غم میں بڑے مطمئن طور سے
وہ جو آئے ارادہ بدلنا پڑا ان کا ساحل پہ آنا غضب ہو گیا
مٹ گئے نقش کھو گئے کارواں چھپ گئے گرد میں راستوں کے نشاں
جاکے منزل پہ جوش خوشی میں مرا خاک منزل اڑانا غضب ہو گیا
بے پئے شیخ صاحب بہکنے لگے غم کے مارے جگر تھام کر رہ گئے
اے امان اللہ تیرا بھری بزم میں شعر عاقلؔ کا گانا غضب گیا
- کتاب : صبحِ باراں (Pg. 38)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.