آفت میں پڑے درد کے اظہار سے ہم اور
یاد آ گئے بھولے ہوئے کچھ اس کو ستم اور
تاخیر کی بنیاد ہے خود عجلت بے جا
جلدی ہے جو لکھنے کی تو رکتا ہے قلم اور
جو بات ہے کل کی اسے اب کہہ نہیں سکتے
ہاں آج تو یہ سچ ہے کہ تم اور ہو ہم اور
زاہد مرے دامن پہ نہ رکھ مفت کی تہمت
ہاتھ اور پسیجے گا تو ہو جائے گا نم اور
جنت بھی جہنم بھی غریب الوطنی میں
یا رب یہیں میرے لیے بنوا دے ارم اور
ہستی تو عدم سے ہے ملائے ہوئے ہر سانس
کھولو نہ کمر کو کہ ہے وقفہ کوئی دم اور
اک فرق مسمیٰ ہے اگر اس کو مٹا دو
ہستی نہ کوئی شے ہے جدا اور نہ عدم اور
طے ہوتی ہے کس طرح الٰہی مری منزل
بڑھتا ہوں جب آگے تو لرزتے ہیں قدم اور
ناصح کی ملامت پہ ہوں خاموش کہ آخر
کچھ میں بھی جو کہتا ہوں تو کھلتا ہے بھرم اور
بھلانے کو دل عیش گزشتہ نہ برا تھا
لیکن یہ نہ سمجھتے تھے کہ بڑھ جائے گا غم اور
جاں کاہیوں میں ہجر کی دے سکتی ہے کیا ساتھ
یہ عمر دو روزہ کہ ہوئی جاتی ہے کم اور
مأخذ :
- کتاب : Nairang-e-Khayaal (Pg. 65)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.