خود فنا ہو کر میں کرتا ہوں خدائی کا گھمنڈ
خود فنا ہو کر میں کرتا ہوں خدائی کا گھمنڈ
مجھ میں کچھ باقی نہیں ہے خود نمائی کا گھمنڈ
لا شریک اور وحدہ پاتا ہوں اپنی ہی صفت
ہے میری عظمت کے شایاں کبریائی کا گھمنڈ
دیکھتا ہوں صورت معشوق اپنی ذات کو
شکل آئینہ میں رکھتا ہوں صفائی کا گھمنڈ
بحر وحدت میں دکھائی دے رہا ہوں جوں جناب
خود ہوں دریا مجھ میں ہے اپنی سمائی کا گھمنڈ
غیب مکنوں کی حقیقت آپ کہہ دیتے ہیں صاف
اس لیے ہے ہم کو باطن کی رسائی کا گھمنڈ
پھنس گئے ہیں عشق کے پھندے میں ہم تو کیا ہوا
ہے ہمارے طائر جاں کو رہائی کا گھمنڈ
ہم ہیں مولیٰ عجز سے بندہ بنے ہیں آپ کے
کب کیا کرتے ہیں عاقل خود ستائی کا گھمنڈ
عشق کے ساقی نے بھر دی دفعتاً کیسی شراب
ہے خم سر میں ہمارے پارسائی کا گھمنڈ
صلح کل اب ہم سے اے شیخ و برہمن سیکھ لو
ہرگز آپس میں نہ رکھو تم لڑائی کا گھمنڈ
میں جو کہتا ہوں انا الحق ثانیٔ منصور ہوں
جانتا ہوں یہ نہیں اپنی بھلائی کا گھمنڈ
ہستی و ذات و صفات و ہست کی معنی ہے اک
عبد و رب کے درمیاں کب ہے جدائی کا گھمنڈ
آ گئے دھوکے میں تیرے کیسے کیسے عشق باز
تجھ کو اے پیارے ہے زیبا دل ربائی کا گھمنڈ
بڑھتی ہے جوں جوں محبت ہوتے ہیں برباد ہم
کیا کریں دنیا میں تیری آشنائی کا گھمنڈ
تجھ میں ہے جور و جفا تو ہم میں بھی کب ہے وفا
اے جہاں ہم سے نہ کر تو ہے وفائی کا گھمنڈ
یا علی دل سے کہا کر گر کوئی مشکل ہو سخت
ہے سزاوار علی عقدہ کشائی کا گھمنڈ
کب زباں ہے ہم کو جو باتیں کریں ہم اس طرح
ہر کوئی کرتا ہے یہاں اپنی بن آئی کا گھمنڈ
عاشق خواجہ معین الدین کا سر جھکتا ہے کب
بڑھ کے ہے شاہی سے بھی اس کی گدائی کا گھمنڈ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.