Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

خود فنا ہو کر میں کرتا ہوں خدائی کا گھمنڈ

عاشق حیدرآبادی

خود فنا ہو کر میں کرتا ہوں خدائی کا گھمنڈ

عاشق حیدرآبادی

MORE BYعاشق حیدرآبادی

    خود فنا ہو کر میں کرتا ہوں خدائی کا گھمنڈ

    مجھ میں کچھ باقی نہیں ہے خود نمائی کا گھمنڈ

    لا شریک اور وحدہ پاتا ہوں اپنی ہی صفت

    ہے میری عظمت کے شایاں کبریائی کا گھمنڈ

    دیکھتا ہوں صورت معشوق اپنی ذات کو

    شکل آئینہ میں رکھتا ہوں صفائی کا گھمنڈ

    بحر وحدت میں دکھائی دے رہا ہوں جوں جناب

    خود ہوں دریا مجھ میں ہے اپنی سمائی کا گھمنڈ

    غیب مکنوں کی حقیقت آپ کہہ دیتے ہیں صاف

    اس لیے ہے ہم کو باطن کی رسائی کا گھمنڈ

    پھنس گئے ہیں عشق کے پھندے میں ہم تو کیا ہوا

    ہے ہمارے طائر جاں کو رہائی کا گھمنڈ

    ہم ہیں مولیٰ عجز سے بندہ بنے ہیں آپ کے

    کب کیا کرتے ہیں عاقل خود ستائی کا گھمنڈ

    عشق کے ساقی نے بھر دی دفعتاً کیسی شراب

    ہے خم سر میں ہمارے پارسائی کا گھمنڈ

    صلح کل اب ہم سے اے شیخ و برہمن سیکھ لو

    ہرگز آپس میں نہ رکھو تم لڑائی کا گھمنڈ

    میں جو کہتا ہوں انا الحق ثانیٔ منصور ہوں

    جانتا ہوں یہ نہیں اپنی بھلائی کا گھمنڈ

    ہستی و ذات و صفات و ہست کی معنی ہے اک

    عبد و رب کے درمیاں کب ہے جدائی کا گھمنڈ

    آ گئے دھوکے میں تیرے کیسے کیسے عشق باز

    تجھ کو اے پیارے ہے زیبا دل ربائی کا گھمنڈ

    بڑھتی ہے جوں جوں محبت ہوتے ہیں برباد ہم

    کیا کریں دنیا میں تیری آشنائی کا گھمنڈ

    تجھ میں ہے جور و جفا تو ہم میں بھی کب ہے وفا

    اے جہاں ہم سے نہ کر تو ہے وفائی کا گھمنڈ

    یا علی دل سے کہا کر گر کوئی مشکل ہو سخت

    ہے سزاوار علی عقدہ کشائی کا گھمنڈ

    کب زباں ہے ہم کو جو باتیں کریں ہم اس طرح

    ہر کوئی کرتا ہے یہاں اپنی بن آئی کا گھمنڈ

    عاشق خواجہ معین الدین کا سر جھکتا ہے کب

    بڑھ کے ہے شاہی سے بھی اس کی گدائی کا گھمنڈ

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے