اب کیا بتاؤں میں ترے ملنے سے کیا ملا
اب کیا بتاؤں میں ترے ملنے سے کیا ملا
عرفان غم ہوا مجھے اپنا پتا ملا
جب دور تک نہ کوئی فقیر آشنا ملا
تیرا نیاز مند ترے در سے جا ملا
منزل ملی مراد ملی مدعا ملا
سب کچھ مجھے ملا جو ترا نقش پا ملا
خود بین و خود شناس ملا خود نما ملا
انساں کے بھیس میں مجھے اکثر خدا ملا
سرگشتۂ جمال کی حیرانیاں نہ پوچھ
ہر ذرے کے حجاب میں اک آئنہ ملا
پایا تجھے حدود تعین سے ماورا
منزل سے کچھ نکل کے ترا راستہ ملا
کیوں یہ خدا کے ڈھونڈنے والے ہیں نامراد
گزرا میں جب حدود خودی سے خدا ملا
یہ ایک ہی تو نعمت انساں نواز تھی
دل مجھ کو مل گیا تو خدائی کو کیا ملا
یا زخم دل کو چھیل کے سینے سے پھینک دے
یا اعتراف کر کہ نشان وفا ملا
سیمابؔ کو شگفتہ نہ دیکھا تمام عمر
کم بخت جب ملا ہمیں غم آشنا ملا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.