ہر جلوۂ ظاہر ہے باطن ہی کی رعنائی
ہر جلوۂ ظاہر ہے باطن ہی کی رعنائی
وہ آپ تماشا ہے اور آپ تماشائی
مٹ کر ترے کوچےمیں منزل مجھے ہاتھ آئی
اس موت پہ صدقے میں قربان مسیحائی
یوں عشق کے صحرا میں کر باد یہ پیمائی
مجنوں بھی پکار اٹھے سودائی ہے سودائی
کچھ ہوش نہ سرکا ہو سجدوں کا نہ چوکھٹ کا
سنگِ درِ جاناں پر ایسی ہو جبیں سائی
مٹنا ہی محبت میں معراجِ محبت ہے
ہونے دو مجھے صدقے رہنے دو مسیحائی
رہبر ہے محبت ہی صحرائے محبت میں
کچھ کام نہیں آتی اس راہ میں دانائی
جب تک نہ ملے تھے تم کیا کیا مجھے کہنا تھا
جب سامنے تم آئے اک بات نہ بن آئی
خود اپنی نمائش کو پردے سے نکل آئے
کاٹے نہ کٹی تم سے آخر شب تنہائی
دیونہ غنیؔ مجھ کو کہتی ہے کہے دنیا
تکمیل محبت کی اک شرط ہے رسوائی
- کتاب : نغماتِ عشق (Pg. 267)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.