کچھ ٹھکانا ہے ناتوانی کا
کچھ ٹھکانا ہے ناتوانی کا
نہ اٹھا بوجھ زندگانی کا
داغ دل میں جو ہے جوانی کا
گل ہے یہ شمع زندگانی کا
جانتا ہوں کہ خود نما ہو تم
پردہ کب تک یہ لن ترانی کا
اور اے پیر چرخ کیا کوسوں
صبر تجھ پر مری جوانی کا
راہ میں وہ مجھے ملے تو ہوا
سامنا مرگ ناگہانی کا
حلقۂ چشم وقت نزع نہیں
ہے یہ چھلا تری نشانی کا
جوش فصل بہار میں اے گل
رنگ ہے تیری نو جوانی کا
ناز ان کے بھی اٹھ نہیں سکتے
زور ہے اب یہ ناتوانی کا
اس طرف بھی نگاہ لطف کبھی
صدقہ اے نوجوان جوانی کا
مرگ جس کو جہاں میں کہتے ہیں
نام ہے میری زندگانی کا
مثل شبنم ہماری قسمت میں
ایک دانہ ہے وہ بھی پانی کا
رخ ترا کس طرح میں دیکھ سکوں
زلف ہے لام لن ترانی کا
چکر آیا مجھے تو یہ سمجھا
اس نے چھلا دیا نشانی کا
چودھویں کا بھی چاند صدقے تھا
ہائے عالم تری جوانی کا
نہ اٹھا مفلسی میں دست سوال
ہے یہ احسان ناتوانی کا
پورا پورا شبیہ یوسف میں
رنگ ہے تیری نو جوانی کا
کیوں نہ پیری میں داغ دل ہو عزیز
پھول ہے باغ نوجوانی کا
دل بتوں سے اٹھا نہیں سکتا
شکر کرتا ہوں ناتوانی کا
منتظر حشر میں ہے دامن تر
مہر محشر کی مہربانی کا
رہ گیا ہے فراق میں مجھ کو
آسرا مرگ ناگہانی کا
دل تو میں نذر کر چکا اے جان
اب سبب کیا ہے مہربانی کا
زیست کا اعتبار کیا ہے امیرؔ
آدمی بلبلا ہے پانی کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.