Sufinama

کچھ ٹھکانا ہے ناتوانی کا

امیر مینائی

کچھ ٹھکانا ہے ناتوانی کا

امیر مینائی

MORE BYامیر مینائی

    کچھ ٹھکانا ہے ناتوانی کا

    نہ اٹھا بوجھ زندگانی کا

    داغ دل میں جو ہے جوانی کا

    گل ہے یہ شمع زندگانی کا

    جانتا ہوں کہ خود نما ہو تم

    پردہ کب تک یہ لن ترانی کا

    اور اے پیر چرخ کیا کوسوں

    صبر تجھ پر مری جوانی کا

    راہ میں وہ مجھے ملے تو ہوا

    سامنا مرگ ناگہانی کا

    حلقۂ چشم وقت نزع نہیں

    ہے یہ چھلا تری نشانی کا

    جوش فصل بہار میں اے گل

    رنگ ہے تیری نو جوانی کا

    ناز ان کے بھی اٹھ نہیں سکتے

    زور ہے اب یہ ناتوانی کا

    اس طرف بھی نگاہ لطف کبھی

    صدقہ اے نوجوان جوانی کا

    مرگ جس کو جہاں میں کہتے ہیں

    نام ہے میری زندگانی کا

    مثل شبنم ہماری قسمت میں

    ایک دانہ ہے وہ بھی پانی کا

    رخ ترا کس طرح میں دیکھ سکوں

    زلف ہے لام لن ترانی کا

    چکر آیا مجھے تو یہ سمجھا

    اس نے چھلا دیا نشانی کا

    چودھویں کا بھی چاند صدقے تھا

    ہائے عالم تری جوانی کا

    نہ اٹھا مفلسی میں دست سوال

    ہے یہ احسان ناتوانی کا

    پورا پورا شبیہ یوسف میں

    رنگ ہے تیری نو جوانی کا

    کیوں نہ پیری میں داغ دل ہو عزیز

    پھول ہے باغ نوجوانی کا

    دل بتوں سے اٹھا نہیں سکتا

    شکر کرتا ہوں ناتوانی کا

    منتظر حشر میں ہے دامن تر

    مہر محشر کی مہربانی کا

    رہ گیا ہے فراق میں مجھ کو

    آسرا مرگ ناگہانی کا

    دل تو میں نذر کر چکا اے جان

    اب سبب کیا ہے مہربانی کا

    زیست کا اعتبار کیا ہے امیرؔ

    آدمی بلبلا ہے پانی کا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے