شوق خلوت میں بھی ہے انجمن آرائی کا
شوق خلوت میں بھی ہے انجمن آرائی کا
آئینہ خانہ ہے گوشہ مری تنہائی کا
پاؤں پر تیرے جو سر ہے ترے شیدائی کا
بوسہ مقصود ہے پردہ ہے جبیں سائی کا
پاؤں صحرا میں ٹکا کب ترے سودائی کا
دل میں لالے کے رہا داغ ہی تنہائی کا
خاک پر خون جو ٹپکا ترے سودائی کا
داغ اچھل کر وہ ہوا لالۂ صحرائی کا
ہم ترے حسن کے بازار سے پھر جائیں کہاں
طور ٹھیکا ہو جو موسیٰ سے تماشائی کا
بے ثباتی چمن حیرت نرگس سے کھلی
مل گیا کور سے سرمہ ہمیں بینائی کا
شفق شام نہیں ہے یہ مرے ماتم میں
منہ کو آیا ہے کلیجا شب تنہائی کا
لا مکاں پر طلب احمد کو خدا نے بھی کیا
متحمل ہو بشر کیا غم تنہائی کا
رو سفیدی مجھے حاصل ہے سیہ کاری میں
میں بھی کیا خط عمل ہوں کسی سودائی کا
شوق دیدار میں اٹھتی ہے جو ہر وقت نگاہ
ناتواں میں انہیں شبہہ ہے توانائی کا
دل کفار اسی سے کیے اللہ نے خلق
بچ رہا کچھ جو اندھیرا شب تنہائی کا
اس رخ صاف کو دیکھوں تو بڑھی اور فروغ
سرمہ ہو گرد نظر آنکھ کی بینائی کا
ٹال جاتے ہیں مجھے دیکھ کے وہ خلق کہاں
رنگ ہے مفلس و منعم کی شناسائی کا
دست گستاخ سے کر دامن یوسف کو نہ چاک
اے زلیخا ہے یہ کوچہ تری رسوائی کا
کوئی آتا نہیں مجھ تک جو بجز یاد خدا
لا مکاں گوشہ ہے شاید مری تنہائی کا
تیغ مژگاں کا غضب ہاتھ لگایا تم نے
کٹ گیا ہائے نگہ چشم تماشائی کا
عین سجدے میں میسر ہے نظارہ اس کا
چشم بینا ہے کہ داغ اپنے جبیں سائی کا
صحبت مردم بے حس میں بہلتا نہیں دل
لاکھ تصویریں ہوں پر رنج ہے تنہائی کا
شوق سے تیغ لگاؤ مجھے لیکن ہے یہ ڈر
خندۂ زخم ڈن٘ڈھورا نہ ہو رسوائی کا
پیاس اس کی جو بجھے گی تو مئے کوثر سے
ظرف عالی ہے امیرؔ احمد بینائی کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.