نہیں ممکن رسائی لا مکاں تک
نہیں ممکن رسائی لا مکاں تک
نشاں کس طرح پہنچے بے نشاں تک
تری سفاکیاں پہنچیں یہاں تک
کہ ڈرتی ہے حیات جاوداں تک
کروں ضبط نفس ہمدم کہاں تک
لگی ہے آگ اک دل سے زباں تک
پہنچ جائے اگر مجھ سخت جاں تک
تو مانگے موت مرگ ناگہاں تک
میں ہوں وہ ناتواں جب آہ کھینچی
تو ٹھہری سو جگہ دل سے زباں تک
کڑی ہے اس قدر منزل عدم کی
کہ مر مر کر پہنچتے ہیں وہاں تک
بہار آخر ہے اور میں بے پر و بال
قفس سے ڈاک بیٹھے آشیاں تک
میں ہوں اس انجمن میں شمع تصویر
کہ سوز دل نہیں آتا زباں تک
ہزاروں حسرتوں کا ہو گیا خوں
کہاں تک پاس رسوائی کہاں تک
مری واماندگی کہتی ہے مجھ سے
پہنچنا ہو چکا اب کارواں تک
غش آیا زاہد و مسجد میں بے مے
چلو لے کر مجھے پیر مغاں تک
ترے قربان اے بیتابیٔ دل
مجھے پہنچا دے اس کے آستاں تک
مکان یار تک قاصد نہ پہنچا
گئے کیسے پیمبر لا مکاں تک
بہت ہی زور پر ہے وصل کا شوق
نزاکت آڑے آئے گی کہاں تک
میں وہ دل سوختہ ہوں اس چمن میں
جلے بجلی جو آئے آشیاں تک
نہیں کچھ تیغ قاتل ہی کشیدہ
خفا ہے مجھ سے مرگ ناگہاں تک
نہ پائی گرد نالوں نے اثر کی
زمیں سے خاک چھانی آسماں تک
جو یوں آنے نہ دے اس کی گلی میں
تو پہنچوں خواب بن کر پاسباں تک
تڑپنے سے مرے تنگ آکے بولے
تسلی دے کوئی تجھ کو کہاں تک
کہاں ہم اے امیرؔ اب اور کہاں داغؔ
یہ جلسے ہو چکے خلد آشیاں تک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.