Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

یہ تو میں کیونکر کہوں تیرے خریداروں میں ہوں

امیر مینائی

یہ تو میں کیونکر کہوں تیرے خریداروں میں ہوں

امیر مینائی

MORE BYامیر مینائی

    یہ تو میں کیونکر کہوں تیرے خریداروں میں ہوں

    تو سراپا ناز ہے میں ناز برداروں میں ہوں

    وصل کیسا تیرے نادیدہ خریداروں میں ہوں

    واہ رے قسمت کہ اس پر بھی گنہ گاروں میں ہوں

    حشر میں اتنا کہوں گا اس سے میں محروم وصل

    پاک دامن تو ہے میں کیونکر گنہ گاروں میں ہوں

    ناتوانی سے ہے طاقت ناز اٹھانے کی کہاں

    کہہ سکوں کیونکر کہ تیرے ناز برداروں میں ہوں

    جان پر صدمہ جگر میں درد دل کا حال زار

    گھر کا گھر بیمار کس کس کے پرستاروں میں ہوں

    ہائے رے غفلت نہیں ہے آج تک اتنی خبر

    کون ہے مطلوب میں کس کے طلب گاروں میں ہوں

    وہ کرشمے شان رحمت نے دکھائے روز حشر

    چیخ اٹھا ہر بے گناہ میں بھی گنہگاروں میں ہوں

    وہ مجھے روتا ہے میں روتا ہوں اس کی جان کو

    دل مرے ماتم میں میں دل کے عزا داروں میں ہوں

    صبح سے مطلب نہ گل سے کام کیا جانوں انہیں

    میں تمہارے سینہ چاکوں میں دل افگاروں میں ہوں

    دل جگر دونوں کی لاشیں ہجر میں ہیں سامنے

    میں کبھی اس کے کبھی اس کے عزاداروں میں ہوں

    میں کسی قالب میں ہوں خالی اداسی سے نہیں

    رنگ ہوں یا بو ہوں مرجھائے ہوئے ہاروں میں ہوں

    چھیڑ دیکھو میری میت پر جو آئے یہ کہا

    تم وفاداروں میں ہو یا میں وفاداروں میں ہوں

    زاہدو کافی ہے اتنی بات بخشش کے لیے

    اس کو شوق مغفرت ہے میں گنہ گاروں میں ہوں

    کس طرح فریاد کرتے ہیں بتا دو قاعدہ

    اے اسیران قفس میں نو گرفتاروں میں ہوں

    حال زار اپنا دکھا کر دل نے اس سے یوں کہا

    کیوں اسی منہ پر یہ کہتے تھے میں دل داروں میں ہوں

    بے گناہوں میں چلا زاہد جو اس کو ڈھونڈنے

    مغفرت بولی ادھر آ میں گنہ گاروں میں ہوں

    خال کہتا ہے دکھا کر یار کا حسن ملیح

    میں بھی اس سرکار کے ادنیٰ نمک خواروں میں ہوں

    اونچے اونچے مجرموں کی ہوگی پرسش حشر میں

    کون پوچھے گا مجھے میں کن گنہگاروں میں ہوں

    وقت آرایش پہن کر طوق بولا وہ حسین

    اب وہ آزادی کہاں میں بھی گرفتاروں میں ہوں

    چارہ سازی کس سے چاہیں اب مریض درد و غم

    کہتے ہیں عیسیٰ کہ میں بھی ان کے بیماروں میں ہوں

    بے گناہی کا تو دعویٰ ان کے آگے کیا مجال

    ڈرتے ڈرتے منہ سے نکلا میں گنہ گاروں میں ہوں

    پوچھتا ہوں وجہ آزادی تو کہتا ہے یہ سرو

    میں کسی کے قد موزوں کی گرفتاروں میں ہوں

    آ چکا تھا رحم اس کو سن کے میری بے کسی

    درد ظالم بول اٹھا میں اس کے غم خواروں میں ہوں

    سوز فرقت درد دل زخم جگر ناسور چشم

    کچھ نہ پوچھو مبتلا میں کتنے آزاروں میں ہوں

    شرم و شوخی دونوں گاہک ہیں الٰہی کیا کروں

    ایک جنس بے حقیقت دو خریداروں میں ہوں

    پھول میں پھولوں میں ہوں کانٹا ہوں کانٹوں میں امیرؔ

    یار میں یاروں میں ہوں عیار عیاروں میں ہوں

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے