مثل تار نظر نظر میں نہیں
مثل تار نظر نظر میں نہیں
اس طرح گھر میں ہوں کہ گھر میں نہیں
ہوش تک راہ بے خودی میں ہیں گم
کوئی ساتھی مرا سفر میں نہیں
ورق گل کو لے اڑی ہے نسیم
خط مرا دست نامہ بر میں نہیں
دیکھ لی آج آنکھ اس گل کی
اب تو نرگس بھی کچھ نظر میں نہیں
عجز بندوں کا کیوں پسند نہ ہو
کہ یہی تو خدا کے گھر میں نہیں
کس کے سر ماریے یہ بار سفر
راہ زن کوئی رہ گزر میں نہیں
دیکھیے تو اسی میں ہے سب کچھ
کون کہتا ہے کچھ بشر میں نہیں
اس قدر بھر گیا ہے داغوں سے
کہ جگہ درد کی جگر میں نہیں
دیکھ کر ان کو سب یہ کہتے ہیں
کیا پری میں ہے جو بشر میں نہیں
سارے عالم کے داغ بھر لیتا
کیا کروں میں جگہ جگر میں نہیں
قرب منعم میں پیچ و تاب کہاں
کہ گرہ رشتۂ گہر میں نہیں
کون لے جائے نامہ قاتل تک
خوف سے جان نامہ بر میں نہیں
رہرو راہ عشق ہوں جز درد
کوئی تو شہہ مری کمر میں نہیں
ہو سکے خاک میہمانی غم
ایک قطرہ لہو جگر میں نہیں
کیجیے تر زبان نشتر کو
خون اتنا بھی اب جگر میں نہیں
مانگنا ہو جو مانگ لے اس سے
کون سی شے خدا کے گھر میں نہیں
رشتۂ کہکشاں میں بجلی ہے
تیغ اس ترک کی کمر میں نہیں
عیش کا نام ہی سنا ہے امیرؔ
ڈھونڈ مارا جہان بھر میں نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.