پڑ گئی کیا لوٹ یا رب گلشن ایجاد میں
پڑ گئی کیا لوٹ یا رب گلشن ایجاد میں
دست گلچیں میں ہے گل بلبل کف صیاد میں
شوخیوں نے تیری چھپ کر پردۂ بیداد میں
بجلیاں بھر دی ہیں مرے نالۂ وفریاد میں
بال وپر اپنے کہاں اس گلشن ایجاد میں
رہ گئے کچھ دام میں کچھ خانۂ صیاد میں
ہو گئی کچھ اور آخر خانۂ صیاد میں
یہ مزہ آگے نہ تھا بلبل تری فریاد میں
دیکھ کر تصویر شیریں نے یہ حسرت سے کہا
ہاے کیا وارفتگی ہے صورت فرہاد میں
دیر میں غافل نہیں اس سے صنم بھی ایک دم
زاہد وبت بن گئے ہیں سب خدا کی یاد میں
پر مرے ٹوٹے ہوئے اڑ جائیں سب سوئے چمن
ایسی آندھی آئے یارب خانۂ صیاد میں
سن کے حال دل ہمارا کیا کسی کا دل دکھے
جل گیا ہے سوزش دل سے اثر فریاد میں
چوکھٹا بنوانے کی مطلق نہیں ہے احتیاج
آپ کی تصویر کا گھر ہے دل بہزاد میں
بلبلو خوشیاں کرو آئی ہے گھر بیٹھے مراد
پھول والوں کا ہے میلا کوچۂ صیاد میں
جرم کیا نکلا انالحق گر لب منصور سے
تھی اسے از خود فراموشی خدا کی یاد میں
وائے قسمت کٹ گئی قید قفس میں اپنی عمر
نکلے بھی گر بھی گئے پر خانۂ صیاد میں
قتل سے پہلے ہی تھا معدوم اپنا جسم زار
خوں کیا لکھتے فرشتے نامۂ جلاد میں
بے قرارری اس قدر تڑپا نہ مجھ کو زیر تیغ
دیکھ ظالم دل نہ اچھلے سینۂ جلاد میں
اپنے اپنے ہیں نصیب اے ہم صفیران چمن
پھنس گئے تم دام میں ہم گیسو صیاد میں
بلبلیں بھی آئیں گی جلنے کو پروانوں کے ساتھ
روغن گل ہے چراغ خانہ صیاد میں
ایک دن برباد ہوگا تند باد مرگ سے
جلتی ہیں اس غم سے شمعیں خانۂ آباد میں
فی الحقیقت دل سے دل کو راہ ہوتی ہے امیرؔ
ہم ہیں ان کی یاد میں وہ ہیں ہماری یاد میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.