عالم شگفتہ ہوں جو میں آفت رسیدہ ہوں
عالم شگفتہ ہوں جو میں آفت رسیدہ ہوں
صبح بہار ہوں جو گریباں دریدہ ہوں
مطلب کی سمت رخ ہے مرا وہ رسیدہ ہوں
گویا قصیدے میں میں گریز قصیدہ ہوں
راغب مری طرف ہے کوئی دل نہ کوئی گوش
بزم جہاں میں حرف مکرر شنیدہ ہوں
میرے صفائے دل نے جو کھولے ہیں میرے عیب
شرمندہ مثل زنگی آئینہ دیدہ ہوں
ماہی کی طرح ہے مجھے مرہم وہ آب تیغ
کیا مبتلائے درد گلوئے بریدہ ہوں
ضبط فغاں سکھاؤں میں اوروں کو ہوں جو خاک
سرمہ پئے صدائے گلوئے بریدہ ہوں
چہرے پہ اس کے مطلع ابرو کا ہے یہ قول
دیوان انوریؔ کا میں مضمون چیدہ ہوں
ظلم جہاں نہ دور فلک کا مجھے خیال
دریا کے جوش میں تہ پل آرمیدہ ہوں
اے اہل بزم مجھ کو اٹھاؤ نہ بزم سے
شمع سحر ہوں عمر بیاباں رسیدہ ہوں
میں اور جم ہیں پیر مغاں دو ترے مرید
لیکن وہ بد عقیدہ ہے میں خوش عقیدہ ہوں
مجروح تیغ حسن ہوا کب خبر نہیں
یوسف کی جلوہ گاہ میں دست بریدہ ہوں
مارا ہے اہل کبر نے پردے میں عجز کے
میں بے خبر تو کشتۂ تیغ خمیدہ ہوں
اب تک کسی پہ میری حقیقت نہیں کھلی
حرف نگفتہ ہوں سخن ناشنیدہ ہوں
پیدا کیے کی شرم الٰہی ضرور ہے
تو آفریدگار ہے میں آفریدہ ہوں
صحرا کو کپڑے پھاڑ کے چلتا ہوں اے جنوں
پائے شکستہ ہوں نہ میں دست بریدہ ہوں
ہوں دشمنوں میں پر نہیں فریاد کی مجال
بتیس دانتوں میں میں زبان بریدہ ہوں
بہتا ہے یاد رخ میں تو کہتا ہے طفل اشک
یوسف کے خاندان کا میں نور دیدہ ہوں
مطلب خزاں سے کچھ نہ غرض ہے بہار سے
دونوں سے مثل سرد میں دامن کشیدہ ہوں
دیکھوں کسی کے عیب تو کیا خاک کہہ سکوں
ہاں غم سے آئینے کی طرح آب دیدہ ہوں
کہتا ہے مرغ روح اجل سے ڈرا ہوا
صیاد میرے پیچھے میں صید رمیدہ ہوں
بلبل ہوں میں نہ گل ہوں گلستان دہر میں
ہاں اک پر شکستۂ رنگ پریدہ ہوں
شبنم کے اے امیرؔ ملے ہیں مجھے نصیب
گل ہنس پڑیں چمن میں جو میں آب دیدہ ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.