Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

آئینہ ترے حسن کا دل بھی ہے جگر بھی

امیر مینائی

آئینہ ترے حسن کا دل بھی ہے جگر بھی

امیر مینائی

آئینہ ترے حسن کا دل بھی ہے جگر بھی

ہے ایک ہی صورت کہ ادھر بھی ہے ادھر بھی

خورشید بھی اس نور کا مظہر ہے قمر بھی

اے بے بصرو کچھ تمہیں آتا ہے نظر بھی

ساقی ہوں تری بزم میں میں تشنہ جگر بھی

صدقے تری آنکھوں کے کوئی جام ادھر بھی

تو چشم سخن گو سے مجھے پوچھ دے اتنا

ہیں باتیں ہی باتیں کہ ہے کچھ مد نظر بھی

کمہلائے چلے جاتے ہیں گل کس کی ہے آمد

گھبرائی ہوئی پھرتی ہے کچھ باد سحر بھی

کیا پاس نہیں میرے جو تم غیر سے مانگو

پہلو میں مرے دل بھی ہے سینے میں جگر بھی

اللہ رے نا طاقتی و ضعف کا عالم

میں کیا کہ پہنچتی نہیں واں میری خبر بھی

منہ مہر فلک کا جو ادھر کو نہیں پھرتا

شاید کوئی معشوق تمہیں سا ہے ادھر بھی

کیا جانئے کیا حال ہے یاران عدم کا

اک عمر ہوئی ہے نہیں آئی ہے خبر بھی

وہ چہرۂ پر نور ہے اک برق تجلی

کس آنکھ سے دیکھوں میں ٹھہرتی ہے نظر بھی

بت خانے سے دل اپنا نہ کعبے سے پھرا ہے

کچھ سوچ کے انجام ادھر بھی ہے ادھر بھی

رک رک کے جو چلتا ہے گلے پر مرے خنجر

کچھ دل میں ہے قاتل کے ترحم کا اثر بھی

کس کس کا گلا کیجیے یا رب کہ شب وصل

دشمن ہے مؤذن کی طرح مرغ سحر بھی

کیا تنگ ہے جلاد مری سختی جاں سے

ہر وار پہ کہتا ہے کہ ظالم کہیں مر بھی

جوبن مری آنکھوں میں پھرا گل بدنوں کا

گدرائے ہوئے باغ میں دیکھے جو ثمر بھی

رفتار تری دیکھ کے کہتے ہیں فرشتے

اللہ غنی ایک ہی فتنہ ہے بشر بھی

مقصود مزہ ہے تو امیرؔ اور کہو شعر

ہوں گے انہیں پھولوں انہیں پتوں میں ثمر بھی

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY
بولیے