آئینہ ترے حسن کا دل بھی ہے جگر بھی
آئینہ ترے حسن کا دل بھی ہے جگر بھی
ہے ایک ہی صورت کہ ادھر بھی ہے ادھر بھی
خورشید بھی اس نور کا مظہر ہے قمر بھی
اے بے بصرو کچھ تمہیں آتا ہے نظر بھی
ساقی ہوں تری بزم میں میں تشنہ جگر بھی
صدقے تری آنکھوں کے کوئی جام ادھر بھی
تو چشم سخن گو سے مجھے پوچھ دے اتنا
ہیں باتیں ہی باتیں کہ ہے کچھ مد نظر بھی
کمہلائے چلے جاتے ہیں گل کس کی ہے آمد
گھبرائی ہوئی پھرتی ہے کچھ باد سحر بھی
کیا پاس نہیں میرے جو تم غیر سے مانگو
پہلو میں مرے دل بھی ہے سینے میں جگر بھی
اللہ رے نا طاقتی و ضعف کا عالم
میں کیا کہ پہنچتی نہیں واں میری خبر بھی
منہ مہر فلک کا جو ادھر کو نہیں پھرتا
شاید کوئی معشوق تمہیں سا ہے ادھر بھی
کیا جانئے کیا حال ہے یاران عدم کا
اک عمر ہوئی ہے نہیں آئی ہے خبر بھی
وہ چہرۂ پر نور ہے اک برق تجلی
کس آنکھ سے دیکھوں میں ٹھہرتی ہے نظر بھی
بت خانے سے دل اپنا نہ کعبے سے پھرا ہے
کچھ سوچ کے انجام ادھر بھی ہے ادھر بھی
رک رک کے جو چلتا ہے گلے پر مرے خنجر
کچھ دل میں ہے قاتل کے ترحم کا اثر بھی
کس کس کا گلا کیجیے یا رب کہ شب وصل
دشمن ہے مؤذن کی طرح مرغ سحر بھی
کیا تنگ ہے جلاد مری سختی جاں سے
ہر وار پہ کہتا ہے کہ ظالم کہیں مر بھی
جوبن مری آنکھوں میں پھرا گل بدنوں کا
گدرائے ہوئے باغ میں دیکھے جو ثمر بھی
رفتار تری دیکھ کے کہتے ہیں فرشتے
اللہ غنی ایک ہی فتنہ ہے بشر بھی
مقصود مزہ ہے تو امیرؔ اور کہو شعر
ہوں گے انہیں پھولوں انہیں پتوں میں ثمر بھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.