خودی سے بے خودی میں آ جو شوق حق پرستی ہے
خودی سے بے خودی میں آ جو شوق حق پرستی ہے
جسے تو نیستی سمجھا ہے اے غافل وہ ہستی ہے
کہیں زائد کہیں کم بادۂ عرفاں کی مستی ہے
بقدر وسعت مشرب مقام مے پرستی ہے
ترے قربان اے مرگ غریبی جلد اب لے چل
وطن کے دیکھنے کو روح مدت سے ترستی ہے
غضب کے جوش میں ہے دختر رز خیر ہو ساقی
بھری بیٹھی ہے دیکھا چاہیے کس پر برستی ہے
دل ویراں کو میرے دیکھ کر کہتی ہے ویرانی
خدا آباد رکھے اس کو کیا دلچسپ بستی ہے
نہ شاخ گل ہی اونچی ہے نہ دیوار چمن بلبل
تری ہمت کی کوتاہی تری قسمت کی پستی ہے
نہ گھبرا اے دل واماندہ اب منزل قریب آئی
اسی بستی کے آگے اور آباد ایک بستی ہے
نہ ہو جو آپ ہی میں اس سے پھر پاس ادب کیسا
تکلف بر طرف ساقی کی وقت جوش مستی ہے
نگاہ ناز خال رخ سے میدان محبت میں
ستم کے تیر پڑتے ہیں غضب گولی برستی ہے
جدا ہم اور دست غیر و زلف دلبر و شانہ
خدا کی شان جو پسپا تھے ان کو پیش دستی ہے
خدا جانے ترا جی لگ گیا دنیا میں کیوں اے دل
اجاڑ اک چند گھر ہیں بے حقیقت سی یہ بستی ہے
قدم جس خاک پر پڑتا ہے تیرے خاک ساروں کا
اگر اکسیر کے مولوں وہ ہاتھ آئے تو سستی ہے
بلائیں لیتے لیتے مست ہو جاتی ہے مشاطہ
وہ چوٹی ارگجے کے عطر میں جس وقت بستی ہے
رہیں کیونکر نہ گرد اس روئے آتش رنگ کے گیسو
عبادت ہندوؤں کے دین میں آتش پرستی ہے
نہیں بچتا ہے دل پر داغ تیری زلف پیچاں سے
یہ وہ ناگن ہے جو طاؤس کو اڑ اڑ کے ڈستی ہے
امیرؔ آتی ہے یہ آواز ناقوس برہمن سے
بت پندار کو توڑو جو شوق بت پرستی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.