جلوہ گر یار مگر قتل گہ عام میں ہے
جلوہ گر یار مگر قتل گہ عام میں ہے
جب بلاتا ہوں میں سنتا ہوں قضا کام میں ہے
نشۂ عیش مجھے گردش ایام میں ہے
مے بے درد اگر ہے تو مرے جام میں ہے
دور جاری ہے ہر وقت مے گلگوں کا
پڑھ لے ساقی یہی تحریر خط جام میں ہے
دفعتاً رنگ بدل دیتی ہے یہ عالم کا
چال اے مہر تری گردش ایام میں ہے
نہ ہوا نالۂ مظلوم سے ظالم بے دار
پھنک چکا صور یہ مردہ ابھی آرام میں ہے
اسم اعظم یہ سلیماں کو تفاخر ہے عبث
سو طرح کا اثر اللہ کے ہر نام میں ہے
دل سے مرے کہ زباں سے تری پوچھے کوئی
غیر کیا جانے مزہ کیا ترے دشنام میں ہے
آنکھ خالی نہ دکھا لطف بھی کر اے ساقی
جام ہی جام ہے یا مے بھی کہیں جام میں ہے
جس طرف دیکھیے کھولے ہوئے آغوش ہے حور
سرفروشی کا مزہ لشکر اسلام میں ہے
الفت زلف میں ہے طائر دل اشک فشاں
آب و دانا مری قسمت کا اسی دام میں ہے
سرمہ اے یار لگایا کہ جگایا جادو
کیا بلا سحر تری چشم سیہ فام میں ہے
پڑ گیا گرمی فرقت سے پھپھولا دل میں
جائے مے دانہ انگور مرے جام میں ہے
لب پہ تو نے جو مسی ملکے جمایا لاکھا
کھل گیا شاہ بدخشاں کا عمل شام میں ہے
یاد گیسو سے کہاں جوش جنوں میں آرام
میں ہوں آزاد تو کیا روح مری دام میں ہے
ڈال دے مجھ سے بلا نوش کو خم کے منہ میں
یہ تو اک گھونٹ ہے ساقی جو ترے جام میں ہے
مرغ دل خاک پھنسے زلف پر افشاں چھڑکو
دام ہی دام ہے دانہ بھی کہیں دام میں ہے
آ گیا روز قیامت نہ پھرے میرے نصیب
جاگ اٹھے مردے یہ غافل ابھی آرام میں ہے
ہے لڑکپن میں بجا خاک سے انسان کو انس
عاقل آغاز سے اندیشۂ انجام میں ہے
نام کا نام تخلص کا تخلص ہے امیرؔ
یہ بڑا حسن خداداد مرے نام میں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.