پہلے نگاہ پھر مری دشمن حیا ہوئی
پہلے نگاہ پھر مری دشمن حیا ہوئی
وہ ایک تھی یہ دوسری اے دل ربا ہوئی
لٹکائے کیوں گئے ہیں یہ کیسی سزا ہوئی
گیسو تو خود بلا تھے انہیں کیا بلا ہوئی
موجود آ کے وصل میں بھی لو حیا ہوئی
اک جان کا عذاب ہوئی شرم کیا ہوئی
گالی بھی پیارے منہ سے ترے خوش نما ہوئی
بے جا بھی بات تونے کہی تو بجا ہوئی
ہے بخشنے نہ بخشنے میں اس کو اختیار
تو ہے گناہ گار کہے جا خطا ہوئی
بیٹھے ہوئے کلیجے میں لیتے ہو چٹکیاں
اے جان دل لگانے کی اچھی سزا ہوئی
کہتا ہے ان سے آئینہ صبح شب وصال
ہے ہے یہ رات بھر میں تری شکل کیا ہوئی
غمزے سے اپنے بولے وہ کشتوں کو دیکھ کر
لو جی مری گلی نہ ہوئی کربلا ہوئی
رحم آ گیا کریم کو محتاج دیکھ کر
حاجت ہی اس غریب کی حاجت روا ہوئی
اب آنکھ کیا ملائے گی مستوں سے دخت رز
قاضی کے گھر میں پڑ کے بڑی پارسا ہوئی
کیا کیا لباس شان کرم کے ہیں دیکھنا
خاک شفا ہوئی کہیں آب بقا ہوئی
اک عمر ہو گئی شب فرقت کو میرے گھر
اب بھی جو ابتدا ہے تو بس انتہا ہوئی
دیکھا نگاہ گرم سے آج اس نے غیر کو
مقبول کس جلے ہوئے دل کی دعا ہوئی
ہے وصل میں تو ہجر سے بھی بڑھ کے اضطراب
تڑپانے میں تو درد سے دونی دوا ہوئی
معشوق سبزہ رنگ تھی جب تک تھی سبز پوش
قاتل لباس سرخ پہن کر حنا ہوئی
شکوہ کیا جفا کا تو بولے کہ نا سپاس
میری جفا ہی سے تو نمود وفا ہوئی
جی خواب رنگ ہوش یکایک سب اڑ گئے
روز فراق تیز کچھ ایسی ہوا ہوئی
آنکھوں کے آگے آکے کھڑی ہو گئی وہ شکل
دم بھر جہاں پلک سے پلک آشنا ہوئی
ہے چیز ایک ادا و قضا اس قدر ہے فرق
سیدھی نظر ادا ہوئی ترچھی قضا ہوئی
آئینہ عاشقوں سے سوا ہے ستم نصیب
پہلے اسی غریب پہ مشق ادا ہوئی
مقتل کو وہ چلے تو ہٹانے کو بھیڑ بھاڑ
تیغ نگاہ کھینچ کے آئے ادا ہوئی
آئینے نے جواب دیا بات بات کا
لو آج تو کھلی کھلی اے دل ربا ہوئی
گھبرا رہے ہو حشر میں کیوں اس قدر امیرؔ
اتنی ہی سی تو بات ہے کہہ دو خطا ہوئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.