ہر کلی کہتی ہے کھل کر ترے دیوانے سے
ہر کلی کہتی ہے کھل کر ترے دیوانے سے
دیکھ نکلی ہے پری سج کے پری خانے سے
ساقیا جاتے ہیں پیاسے ترے مے خانے سے
گھونٹ دو گھونٹ چھلکتے ہوئے پیمانے سے
بت بنے بیٹھے ہیں بت جی مرا گھبراتا ہے
اٹھ کے کعبے کو چلا جاؤں گا بت خانے سے
حسرتیں دیکھیں مرے دل میں تو بولے شب وصل
لپٹی ہیں کیوں یہ بلائیں مرے دیوانے سے
لا مکاں کے جو کتابوں میں لکھے ہیں اوصاف
ملتے جلتے ہیں وہ کچھ کچھ مرے ویرانے سے
دل مرا توڑ دیا آج مرے ساقی نے
مے پلائی بھی تو ٹوٹے ہوئے پیمانے سے
رحم ان پر تو کر اٹھنے دے کبھی تو ان کو
ہیں غضب میں تری آنکھیں ترے شرمانے سے
شیخ جی رہتی ہیں کیوں سرخ تمہاری آنکھیں
شب کو کیا لال پری آتی ہے مے خانے سے
رقص کرنے لگا دم بھر میں چھلک کر ساقی
کہہ دیا جھک کے یہ کیا شیشے نے پیمانے سے
میں نے زلفوں کی ثنا کی تو کہا چپ بھی رہو
دم الجھتا ہے اس الجھے ہوئے افسانے سے
دل چرایا ہے تو آنکھیں نہ چراؤ دیکھو
چوری کھلنے کا ہے ڈر چور کے گھبرانے سے
شیخ جی آئے تھے رندوں میں کیسی تھی کثیف
کیا نہا دھو کے نکل آئے ہیں مے خانے سے
کل نظر آئے تھے جاتے ہوئے مسجد کو امیرؔ
آج دیکھا تو چلے آتے ہیں میخانے سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.