چمکائے ہیں کیا داغِ جگر آورِ سا نے
چمکائے ہیں کیا داغِ جگر آورِ سا نے
ان پھولوں میں اور آگ لگا دی ہے صبا نے
جائے تپش دل مری کس کس کو بلانے
منہ تیری طرح مجھ سے چھپایا ہے قضا نے
پردہ رخِ محبوب سے الٹا ہے ہوا نے
یہ پھول کھلایا ہے نیا بادِ صبا نے
یاں ہاٹھ اٹھایا ہے دعا کے لیے میں نے
تاثیر سے واں ہاتھ اٹھایا ہے دعا نے
بلبل جو ہوئی ذبح تو غنچے یہ پکارے
چھوڑا ہے شگوفہ یہ نیا بادِ صبا نے
لو وصل میں بیتابی دل ہوگئی وہ نی
کی اور کمک دردِ محبت کی دوا نے
کس کس کے چلے جوڑ شبِ وصل میں مجھ پر
چکمے دیے شوخی نے تو کی چال حیا نے
دل پس کے امیرؔ ان کے قدم تک بھی نہ پہنچا
اور بوسے لیے ہاتھوں کے بھی پس کے حنا نے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.