موباف کھل گیا ہے کسی گلعذار کا
موباف کھل گیا ہے کسی گلعذار کا
آنچل لٹک رہا ہے عروس بہار کا
کچھ تو سبب ہے گردش لیل و نہار کا
اس پر پڑا ہے صبر کسی بیقرار کا
کیا دل جلا رہا ہے پس مرگ ہے دعا
ٹھنڈا رہے چراغ الٰہی مزار کا
جن کو ملا کے خاک میں خوش ہو رہے ہو تم
تکیوں میں دیکھو رقص بھی ان کے غبار کا
گرد نظر سے ہو نہ مکدر الٹ نقاب
غافل غبار ہے یہ رہ انتظار کا
پھولوں کا قافلہ ہے کہ اتری ہے یہ برات
ہر شاخ گل ہے پاؤں عروس بہار کا
آئیں وہ یا نہ آئیں ترس کھائیں یا نہ کھائیں
کیا اختیار گریۂ بے اختیار کا
پھر بیٹھے بیٹھے وعدۂ وصل اس نے کر لیا
پھر اٹھ کھڑا ہوا وہی روگ انتظار کا
دل سوز بیکسی سا نہیں کوئی بعد مرگ
پروانہ ہو گئی مرے شمع مزار کا
روؤں تو ان کو آتی ہے بے ساختہ ہنسی
اچھا ہے جوڑ گریۂ بے اختیار کا
ایسا مزا ملا ہے تڑپ میں کہ ہے دعا
بڑھ جائے اور طول شب انتظار کا
پر لگ گئے چمن کے تم آئے جو سیر کو
کیا اڑ چلا ہے رنگ عروس بہار کا
وہ شوخ اپنی راہ ہے یہ اپنی راہ ہے
قابو کا دل ربا ہے نہ دل اختیار کا
ساقی کے ہاتھ سے جو گرا جام کہہ اٹھا
ٹوٹا وہ دل کہیں کسی امیدوار کا
ہمراہ ہے جو حسرت و ارماں کی بھیڑ بھاڑ
تابوت اٹھا امیرؔ غریب الدیار کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.