جتنا کمی کہ نامہ سیاہی میں رہ گئی
جتنا کمی کہ نامہ سیاہی میں رہ گئی
اتنی ہی دیر عضوِ آلہی میں رہ گئی
حسرت نہیں وطن کی تباہی میں رہ گئی
کچھ گرد تھی کہ دامنِ راہی میں رہ گئی
صد شکر عفو میرے گنہ حشر میں ہوئے
حرست گدا کی مجلسِ شاہی میں رہ گئی
آنکھ اس نے پھیر لی تو کہاں پھر ہماری زیست
آدھی تو جان نیم نگاہی میں رہ گئی
تھی زار کوئے یار میں کیا جاتی اپنی خاک
اتنی تھی کم کہ اڑ کے ہوا ہی میں رہ گئی
دی بھی تو قد یار کو طوبی سے دی مثال
پستی مری بلند نگاہی میں رہ گئی
دیکھو تعلیان مری قندیل آہ کی
کیسی لٹک کے عرش الٰہی میں رہ گئی
ڈوبے ہوئے نصیب نہ اچھلے کسی طرح
کشتی ابھر ابھر کے تباہی میں رہ گئی
بخت یہ ہے آنکھیں نہ اس سے ہوئیں دو چار
چونک چمک چمک کے سیاہی میں رہ گئی
پردے سے اس کی ذات کو کیا کام تھا امیرؔ
چھپ کر صفاتِ نامتنا ہی میں رہ گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.