جب میری دید کی اس کو خواہش ہوئی عرش سے فرش پر مجھ کو لانا پڑا
جب میری دید کی اس کو خواہش ہوئی عرش سے فرش پر مجھ کو لانا پڑا
عزیزالدین رضواں قادری
MORE BYعزیزالدین رضواں قادری
جب میری دید کی اس کو خواہش ہوئی عرش سے فرش پر مجھ کو لانا پڑا
بات اتنی سی تھی عشق بے تاب تھا اس لیے سارا عالم بنانا پڑا
احد احمد بنا حسن کی دھوپ میں بن کے آدم محمد کے ہر روپ میں
جس طرف دیکھیے نور ہی نور ہے کس کو آنا پڑا کس کو جانا پڑا
ناصحا جلوہ گر کون ہے جان لے سخن اقرب کے معنی کو پہچان لے
میں بنا بھی غلط تو بنا بھی غلط ایسی تکرار سے باز آنا پڑا
ہاں یہ سچ ہے کہ ہر شئے میں ہے وہ نہاں ہے وہ شعبدہ گر کیا ملے گا نشاں
پھر بھی کچھ قلب کی تشنگی کے لیے خود کو کھونا پڑا خود کو پانا پڑا
اب تصور میں اپنے کہاں غیر ہے شر ہوا لا پتا خیر ہی خیر ہے
اپنا ظاہر ہی باطن کو سجدہ کیا اس لیے سر کو اپنے جھکانا پڑا
کیسے کہہ دوں نہیں کوئی میرے سوا کیا سمجھ کر کہوں جلوہ گر ہے خدا
دونوں علت سے رضواںؔ مبرا ہے وہ ایسی علت سے دامن بچانا پڑا
- کتاب : الکبیر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.