یا تو ایسی مہربانی مجھ پہ یا کچھ بھی نہیں
یا تو ایسی مہربانی مجھ پہ یا کچھ بھی نہیں
ابتدا ہی ابتدا نہی انتہا کچھ بھی نہیں
دیکھ کر تصویر یوسف کہہ دیا کچھ بھی نہیں
آپ ہی سب کچھ ہیں گویا دور کچھ بھی نہیں
پوچھنے والوں نے میرے ناک میں دم کر دیا
جس نے پوچھا حال میرا کہہ دیا کچھ بھی نہیں
ان کو خط لکھا ہے سو پہلو بچا کر خوف سے
ہے عبارت ہی عبارت مدعا کچھ بھی نہیں
سیکڑوں دین جھڑکیاں مجھ کو ہزاروں گالیاں
اور پھر کہتے ہو میں نے تو کہا کچھ بھی نہیں
سن کے حال دل میرا رکھتے ہیں وہ کانوں پہ ہاتھ
ہائے اس انداز سے گویا سنا کچھ بھی نہیں
تم اگر بیداد گر ہو تو خدا ہے داد گر
یہ نہ سمجھو پرسش روز جزا کچھ بھی نہیں
آگے اس بیگانہ وش کے ہیچ ہے سب کوئی
آشنا کچھ بھی نہیں نا آشنا کچھ بھی نہیں
بیخودی ہے وصل میں یا چھائی ہے تیری حیا
دیکھتا سب کچھ ہوں لیکن سوجھتا کچھ بھی نہیں
اپنے دم کو آدمی ہر دم غنیمت جان لے
خاک کا پھر ڈھیر ہے بعد فنا کچھ بھی نہیں
تو نے قسامِ ازل غیروں کو کیا کیا کچھ دیا
داغؔ ہے محروم اس کے نام کا کچھ بھی نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.