فصل گل آئی ہے پھر وحشت سوا ہونے کو ہے
فصل گل آئی ہے پھر وحشت سوا ہونے کو ہے
پرزے پرزے جسم پر میرے قبا ہونے کو ہے
یہ کسی عاشق کا سر تن سے جدا ہونے کو ہے
امتحان تیغ قاتل برملا ہونے کو ہے
دوڑے آتے ہیں جو وہ گو بہ غریباں کی طرف
فتنہ اب تازہ کوئی شاید بپا ہونے کو ہے
سرخ جوڑا یار نے پہنا ہے خنجر کھینچ کر
آج دیکھیں معرکہ عاشق سے کیا ہونے کو ہے
حاسدوں نے آخرش اس شوخ کو بھڑکا دیا
سنتے ہیں عاشق سے اب وہ پھر خفا ہونے کو ہے
بے سبب جلاد مقتل میں نہیں ہوتے طلب
عاشقوں کو عشق کی ان کے سزا ہونے کو ہے
لوگ کہتے ہیں کہ گندھوائیں گے چوٹی آپ بھی
سانپ سمجھے تھے جسے وہ اژدہا ہونے کو ہے
عاشقوں کے سر پہ بیشک آنے والی ہے بلا
زلف مشکیں دوش پر ان کے رہا ہونے کو ہے
سخت جانی کیوں گلا کٹنے نہیں دیتی میرا
دکھ گیا ہے دست قاتل و خفا ہونے کو ہے
بے تحاشا جب لپٹ جاتا ہوں کہتا ہے وہ شوخ
آج دامن گیر کیا تیری قضا ہونے کو ہے
تھوڑی تھوڑی بات پر ہر دم بگڑتے ہیں جو وہ
اے ثریاؔ تم پہ پھر ظلم و ستم ہونے کو ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.