گئے دونوں جہاں نظر سے گزر تری شان کا کوئی بشر نہ ملا
گئے دونوں جہاں نظر سے گزر تری شان کا کوئی بشر نہ ملا
اکبر وارثی میرٹھی
MORE BYاکبر وارثی میرٹھی
دلچسپ معلومات
۱۹۱۳ میں گلدستۂ قوالی کے صفحہ ۹ پر مذکورہ غزل حاجی محمد شریف الدین کانپوری کے نام و تخلص کے ساتھ طبع ہے۔
گئے دونوں جہاں نظر سے گزر تری شان کا کوئی بشر نہ ملا
تری ہر جگہ دیکھی نرالی پھبن ترا بھید کسی کو مگر نہ ملا
ترا چرچا جہاں کی زبانوں میں ہے ترا شور زمانے کے کانوں میں ہے
مگر آنکھوں سے دیکھا تو پردہ نشیں کہیں تو نہ ملا ترا گھر نہ ملا
کوئی جلوۂ طور پہ غش میں گرا کوئی سدرہ پہ چلنے سے عاری ہوا
گئی عقل رسا تو خبر نہ ملی اڑا طائر فکر تو پر نہ ملا
مرے ملنے سے ہوتا ہے چیں بہ جبیں ترے ملنے نہ ملنے کا شکوہ نہیں
جو گلا ہے تو ہے یہی حق سے گلا مجھے ترا سا ہائے جگر نہ ملا
کوئی ملنے کا تیرے نشاں بھی ہے کہیں رہنے کا تیرے مکاں بھی ہے
تجھے دیکھا ادھر تو ادھر نہ ملا تجھے ڈھونڈا ادھر تو ادھر نہ ملا
کہیں دست سوال دراز نہیں کسی اور پہ یوں مجھے ناز نہیں
کوئی تجھ سا غریب نواز نہیں ترے در کے سوا کوئی در نہ ملا
میں خدا جانے کس پہ ہوا ہوں فدا مرے ہوش و حواس نہیں ہیں بجا
پرے ہٹ تو پری میرے پاس نہ آ چل حور تو مجھ سے نظر نہ ملا
میں ہمیشہ اسیر الم ہی رہا مرے دل میں سدا تیرا غم ہی رہا
مرا نخل امید قلم ہی رہا میرے رونے کا کوئی ثمر نہ ملا
اسی فکر میں گزرے ہے دن اکبرؔ اسی غم میں گنے تارے شب بھر
کیا جس نے اشارے سے ٹکڑے قمر کبھی ہم سے وہ رشک قمر نہ ملا
- کتاب : ریاض اکبر: اصلی دیوان اکبر (Pg. 15)
- Author : محمد اکبر خاں وارثی
- مطبع : مطبع مجیدی، میرٹھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.