Font by Mehr Nastaliq Web

گرم اندر کا اکھاڑا ہے تو مے خانے سے

امیر مینائی

گرم اندر کا اکھاڑا ہے تو مے خانے سے

امیر مینائی

MORE BYامیر مینائی

    گرم اندر کا اکھاڑا ہے تو مے خانے سے

    رقص پریوں کا کوئی سیکھ لے پیمانے سے

    عکس کی جھیپی ہوئی شکل تو آئینے میں دیکھ

    شرم اس کو بھی تو آئی ترے شرمانے سے

    دل ہے دیوانۂ گیسو تو پہن لے بیڑی

    آن ہے عشق کے بانکوں کی اسی بانے سے

    رات یہ تازہ کھلا گل کہ مرے دل کی کلی

    مسکرائی تری چولی کے مسک جانے سے

    آبرو ہے دل دیوانہ ہی سے گیسو کی

    متبرک ہے یہ تسبیح اسی دانے سے

    ان کی یہ ہٹ کہ نہیں آج نہ دوں گا بوسہ

    دل کی یہ ضد کہ بہلتا نہیں بہلانے سے

    دھوکے دیتے نہیں آنکھوں کو بیابانوں میں

    چھلیں کرتے ہیں چھلاوے ترے دیوانے سے

    اعتبار آپ نے وعدے کا خود اپنے کھویا

    نہ رہی اتنی بھی توقیر قسم کھانے سے

    کہتی ہے وصل کی شب ان کی حیا سی شوخی

    آج حاصل نہیں کچھ چھپنے شرمانے سے

    خانقاہوں میں جو یہ پھرتی ہے بہکی بہکی

    توبہ بھی پی کے مگر نکلی ہے مے خانے سے

    دیکھ پایا ہے انہیں حضرت ناصح نے کہیں

    اب میں سمجھا جو غرض ہے مری سمجھانے سے

    قاضئ شہر ہو یا شیخ حرم کوئی ہو

    جو نہ ہو مست نکالو اسے مے خانے سے

    اشک ہے دانہ مرا اشک ہے پانی میرا

    اور واقف ہوں نہ پانی سے نہ میں دانے سے

    اک ذرا سی حرکت کی بھی سکت مجھ میں نہیں

    غش پہ غش آتے ہیں اب ہوش میں بھی آنے سے

    توبہ ٹوٹی ہے ضرور آج کسی اونچے کی

    توبہ توبہ کی صدا آتی ہے مے خانے سے

    لوٹیں عشاق تہ خاک کے سینوں پہ بھی سانپ

    یہ اشارہ ہے لٹیں زلف کی لٹکانے سے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے