مر رہا ہوں میں خیال یار میں
حسرتیں ہیں سو دل بیمار میں
سادگی پر ان کی مرتا ہے جہاں
ڈھیر ہے لاشوں کے سب بازار میں
کر دیا چھلنی کلیجے کو تمام
برچھیاں ہیں کیا نگاہ یار میں
میرے نالوں نے جلایا سب چمن
خار تک باقی نہیں گلزار میں
اڑ کے سر قاتل کے قدموں پر گرا
پھل لگا حسرت کا نخل وار میں
زندگی ہے اس میں اس میں موت ہے
فرق ہے اقبال میں انکار میں
ایک دم میں سینکڑوں گھائل ہوئے
کتنی چھریاں ہیں نگاہ یار میں
گور پر حسرت برستی ہے مری
مر گیا ہوں حسرت دیدار میں
ان کا گھر آئینہ ہو گیا
لگ گئے دل سب در و دیوار میں
کھد رہی ہے قبر تلواروں سے کے
دفن غوثیؔ کا ہے کوئے یار میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.