امیری کیسی کیا یہ مرتبہ شاہی وزیری کا
امیری کیسی کیا یہ مرتبہ شاہی وزیری کا
تو اے غافل شناسائے مدارج ہو فقیری کا
نہ بھاویں گے ہمارے بعد اسے دلہائے بے نسبت
ہمیں اک عمر رووے گا مزا دل کی اسیری کا
جوانی ہنس کے کاٹی اب پلک پر اشک چمکی ہے
جو رات آخر ہوئی نکلا ستارہ صبح پیری کا
مرے نالوں کے سننے سے تو چپ لگ جائے گی تجھ کو
نہ رکھ آہنگ میرے ساتھ بلبل ہم صفیری کا
گرانا چاہتا ہے عجب دانش مجھ کو رتبہ سے
جنوں آ بھی یہی تو وقت ہے اب دستگیری کا
سخن سنجاں صاحب دل ہے قدر اس کی سمجھتے ہیں
بدل ہے یہ مرا دیوان دیوان نظیری کا
وہ بزم شعر کیا جس میں نہ آویں حضرت راسخؔ
کہ آنا ان کا آنا ہے شفائی کا نظیری کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.