اپنی غربت سے تیری شان سے ڈر لگتا ہے
اپنی غربت سے تیری شان سے ڈر لگتا ہے
آپ سے حسن کے سلطان سے ڈر لگتا ہے
جی تو چاہتا ہے ترے عشق کو افشا کر دوں
تیری عزت سے تری آن سے ڈر لگتا ہے
دیدہ دانستہ جو انجان بنا بیٹھا ہو
ایسے نادان سے انجان سے ڈر لگتا ہے
راہرو راہ محبت کا خدا حافظ ہو
اس خطرناک بیاباں سے ڈر لگتا ہے
رنگ بدلے گی یہ فرقت میں نہ جانے کیا کیا
اے خدا اب مجھے اس جان سے ڈر لگتا ہے
پھر نہ پھر جائے کہیں مجھ سے عنایت کی نظر
اس نئے عہد سے پیمان سے ڈر لگتا ہے
دفعتا اس نے جو روکا ہے جفاوں سے ہاتھ
ہائے اس زود پشیمان سے ڈر لگتا ہے
قہر کی مجھ پہ نظر ھو کہ عنایت کی نظر
اس بت شوخ کی ہر شان سے ڈر لگتا ہے
وہ تو مائل بہ کرم ھو ھی گیے ہیں لیکن
مجھ کو بدلے ہوئے نادان سے ڈر لگتا ہے
نام سنتے ہی مرا مجھ سے لپٹ کر بولے
مجھ کو اس حشر بدامان سے ڈر لگتا ہے
اے محبت کے پرستار سنبھل کر چلنا
راہ الفت میں ہر اک آن سے ڈر لگتا ہے
کس قدر پاس ہے رسوائی کا اپنی ان کو
راہ میں ملنے سے پہچان سے ڈر لگتا ہے
توڑتے ہیں وہ مرا دل یہ سنا کر مجھ کو
مجھ کو دو روز کے مہمان سے ڈر لگتا ہے
بات اتنی سی تھی پہنچی کہاں تک یا رب
ایسے بڑھتے ہوئے طوفان سے ڈر لگتا ہے
اس کی رحمت کی کوئی حد ہی نہیں ہے مشتاقؔ
اپنی ہی تنگئ دامان سے ڈر لگتا ہے
- کتاب : اسرارالمشتاق
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.