گزشتہ خاک نشینوں کی یادگار ہوں میں
گزشتہ خاک نشینوں کی یادگار ہوں میں
مٹا ہوا سا نشان سر مزار ہوں میں
غریب چاہنے والوں میں تیرے یار ہوں میں
دماغ عرش پہ ظاہر میں خاکسار ہوں میں
ترے کرم میں کمی کچھ نہیں کریم ہے تو
مرا قصور ہے جھوٹا امیدوار ہوں میں
پڑا ہے دست اجل مجھ پہ لاکھ بار مگر
نکل گیا ہوں تڑپ کر وہ بے قرار ہوں میں
کچھ آج میں نے نئی پی ہے حضرت واعظ
ازل کا مست پرانا شراب خوار ہوں میں
نگاہ گرم سے مجھ کو نہ دیکھ اے دوزخ
خبر نہیں تجھے کس کا گناہگار ہوں میں
زمین قصر سلاطیں سے آ رہی ہے صدا
کہ آج منزل عشرت ہوں کل مزار ہوں میں
پھر اس کی شان کریمی کے حوصلے دیکھے
گناہ گار یہ کہہ دے گناہ گار ہوں میں
جو مست ہوش میں آنے کا قصد کرتا ہے
پکارتا ہے یہ ساقی کہ ہوشیار ہوں میں
وہ کشتہ ہوں کہ مری لاش جس طرف گزری
زمیں پکار اٹھی قابل مزار ہوں میں
حضور وصل کی حسرت ازل سے ہے مجھ کو
خیال کیجیے کب سے امیدوار ہوں میں
خبر نہیں اسے روتا ہوں حال پر جس کے
اداس صورت شمع سر مزار ہوں میں
شب فراق مری جان دل سے کہتی ہے
تڑپ چکا ہو اگر تو تو بے قرار ہوں میں
بلائیں لیتی ہے پھر پھر کے گرد نومیدی
یہ کس کے در پر الٰہی امیدوار ہوں میں
وہ بے قرار ہوں دیکھے اگر تڑپ میری
قرار بھی یہ پکارے کہ بے قرار ہوں میں
پکارتا ہے یہ موباف اس کی چوٹی کا
کہ سب سے پیچھے ہوں پر چوٹی کا سنگار ہوں میں
بڑے مزے سے گزرتی ہے بے خودی میں امیرؔ
وہ دن خدا نہ دکھائے کہ ہوشیار ہوں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.