ہمیں کیا غم قیامت میں جو پرسش ہونے والی ہے
ہمیں کیا غم قیامت میں جو پرسش ہونے والی ہے
کہ جب وہ فتنہ گر آیا تو پھر میدان خالی ہے
کدورت دل کی جو فریاد کرنے سے نکالی ہے
وہ کہتے ہیں محبت پر ہماری خاک ڈالی ہے
ابھی ہیں بھولی بھولی باتیں ان کی خوردسالی ہے
مگر چتون یہ کہتی ہے قیامت ہونے والی ہے
ہماری توبہ زاہد کی جوانی دونوں بیکس ہیں
نہ کوئی اس کا وارث ہے نہ کوئی اس کا والی ہے
الٰہی کیوں غم فرقت فلک مجھ کو دکھلاتا ہے
کہ میں نے ہجر جاناں میں قسم کھانے کی کھا لی ہے
دعائیں دے رہا ہوں زیر مرقد اپنے قاتل کو
خدا رکھے اسے جس نے مری حسرت نکالی ہے
ملے تو نے کف افسوس پہروں مرگ دشمن پر
یہ سرخی اس کے ہے ہاتھوں میں یا مہندی کی لالی ہے
شباب ایسا جو ہو اس سے بہار گل کو کیا نسبت
تری چڑھتی جوانی ہے اور اس کی ڈھلنے والی ہے
بیاں کی ہے وفائی جب زمانے کی تو وہ بولے
اجی ہم خوب سمجھے صاف تم نے ہم پہ ڈالی ہے
دل مضطر کو تھامے پھر رہا ہوں میں شب فرقت
نہ میرے پاؤں خالی ہیں نہ میرا ہاتھ خالی ہے
مجھے گھر کاٹے کھاتا ہے تو بستر پھاڑے کھاتا ہے
شب فرقت میں کیا شیر نیستاں شیر قالی ہے
ہوا ہے چار سجدوں پر یہ زاہدو تم کو
خدا نے کیا تمہارے ہاتھ جنت بیچ ڈالی ہے
اٹھا لیں لطف کوئی دن یہاں پھر ہم کہاں پھر تم
برا وقت آنے والا ہے جدائی ہونے والی ہے
کہاں قسمت کہاں ہمت کہاں طاقت کہ میں پہنچوں
کہ منزل عشق کی کچھ عرش اعلیٰ سے بھی عالی ہے
بھری ہیں حسرتیں ہی حسرتیں اس خانۂ دل میں
مگر دیکھو تو یہ پھر گھر کا گھر خالی کا خالی ہے
یہ چالیں آسماں کی کچھ سمجھ میں ہی نہیں آتیں
کسی کی سرفرازی ہے کسی کی پائمالی ہے
لب معجز نما سے گالیاں دیتی ہیں جو ہنس کر
مری تصویر میں بھی تم نے گویا جان ڈالی ہے
کبھی ہے اس کی چوکھٹ پر کبھی ہے اس کے قدموں پر
ازل سے میری پیشانی بڑی تقدیر والی ہے
کیا جانے کہا کیا او ستم گر راہ چلتوں نے
خفا کیوں ہو کوئی بازار کی گالی بھی گالی ہے
تری محفل میں تیرے داغ کو ہم نے نہیں دیکھا
بھری ہیں غیر آ آ کر جگہ اس کی ہی خالی ہے
وہ لکھیں گے تجھے خط کا جواب اے داغؔ کیا کہنا
یہ تو نے خواب دیکھا ہے کہ مضمون خیالی ہے
- کتاب : Guldasta-e-Qawwali (Pg. 15)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.