ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
تری بانکی چتون نے چن چن کے مارے
نکیلے سجیلے جواں کیسے کیسے
نہ گل ہیں نہ غنچے نہ بوٹے نہ پتے
ہوئے باغ نذر خزاں کیسے کیسے
ستاروں کی دیکھو بہار آنکھ اٹھا کر
کھلاتا ہے پھول آسماں کیسے کیسے
کڑے ان کے تیور جو مقتل میں دیکھے
لیے ناز نے امتحاں کیسے کیسے
یہاں درد سے ہاتھ سینے پہ رکھا
وہاں ان کو گزرے گماں کیسے کیسے
وہ صورت نہ آنکھوں میں اب ہے نہ دل میں
مکیں سے ہیں خالی مکاں کیسے کیسے
ترے جاں نثاروں کے تیور وہی ہیں
گلے پر ہیں خنجر رواں کیسے کیسے
جہاں نام آتا ہے ان کا زباں پر
تو لیتی ہے بوسے زباں کیسے کیسے
ہر اک دل پہ ہیں داغ ناکامیوں کے
نشاں دے گیا بے نشاں کیسے کیسے
بہار آ کے قدرت کی گلشن میں دیکھو
کھلاتا ہے گل باغباں کیسے کیسے
اٹھائے ہیں مجنوں نے لیلہ کی خاطر
شتر غمزۂ سار باں کیسے کیسے
خوش اقبال کیا سرزمین سخن ہے
ملے ہیں اسے باغباں کیسے کیسے
جوانی کا صدقہ ذرا آنکھ اٹھاؤ
تڑپتے ہیں دیکھو جواں کیسے کیسے
شب وصل حل ہوں گے کیا کیا معمے
عیاں ہوں گے راز نہاں کیسے کیسے
خزاں لوٹ ہی لے گئی باغ سارا
تڑپتے رہے باغباں کیسے کیسے
بنا کر دکھائے مرے درد دل نے
تہہ آسماں آسماں کیسے کیسے
امیرؔ اب مدینے کو تو بھی رواں ہو
چلے جاتے ہیں کارواں کیسے کیسے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.