Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے

امیر مینائی

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے

امیر مینائی

MORE BYامیر مینائی

    ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے

    زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

    تری بانکی چتون نے چن چن کے مارے

    نکیلے سجیلے جواں کیسے کیسے

    نہ گل ہیں نہ غنچے نہ بوٹے نہ پتے

    ہوئے باغ نذر خزاں کیسے کیسے

    ستاروں کی دیکھو بہار آنکھ اٹھا کر

    کھلاتا ہے پھول آسماں کیسے کیسے

    کڑے ان کے تیور جو مقتل میں دیکھے

    لیے ناز نے امتحاں کیسے کیسے

    یہاں درد سے ہاتھ سینے پہ رکھا

    وہاں ان کو گزرے گماں کیسے کیسے

    وہ صورت نہ آنکھوں میں اب ہے نہ دل میں

    مکیں سے ہیں خالی مکاں کیسے کیسے

    ترے جاں نثاروں کے تیور وہی ہیں

    گلے پر ہیں خنجر رواں کیسے کیسے

    جہاں نام آتا ہے ان کا زباں پر

    تو لیتی ہے بوسے زباں کیسے کیسے

    ہر اک دل پہ ہیں داغ ناکامیوں کے

    نشاں دے گیا بے نشاں کیسے کیسے

    بہار آ کے قدرت کی گلشن میں دیکھو

    کھلاتا ہے گل باغباں کیسے کیسے

    اٹھائے ہیں مجنوں نے لیلہ کی خاطر

    شتر غمزۂ سار باں کیسے کیسے

    خوش اقبال کیا سرزمین سخن ہے

    ملے ہیں اسے باغباں کیسے کیسے

    جوانی کا صدقہ ذرا آنکھ اٹھاؤ

    تڑپتے ہیں دیکھو جواں کیسے کیسے

    شب وصل حل ہوں گے کیا کیا معمے

    عیاں ہوں گے راز نہاں کیسے کیسے

    خزاں لوٹ ہی لے گئی باغ سارا

    تڑپتے رہے باغباں کیسے کیسے

    بنا کر دکھائے مرے درد دل نے

    تہہ آسماں آسماں کیسے کیسے

    امیرؔ اب مدینے کو تو بھی رواں ہو

    چلے جاتے ہیں کارواں کیسے کیسے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے