حسن مطلق کا ازل کے دن سے میں دیوانہ تھا
حسن مطلق کا ازل کے دن سے میں دیوانہ تھا
لا مکاں کہتے ہیں جس کو وہ مرا کاشانہ تھا
بے تعلق کیا ہمیں اس کے تصور نے کیا
جب جھکایا سر گریباں اپنا خلوت خانہ تھا
باغ عالم کا تماشا باعث غفلت ہوا
دیکھنا آنکھوں کا کانوں کے لئے افسانہ تھا
شکر صد شکر اس حسیں کے نور سے روشن ہے دل
شمع رخ پر جس کے جبرئیل امیں پروانا تھا
اس قدر اس کے تصور نے ستایا ہے مجھے
شبہ ہوتا ہے کہ ہستی میں کبھی تھا یا نہ تھا
کیا ہوا انکار گر اصرار موسیٰ پر ہوا
یہ کمال شوق تھا وہ ناز معشوقانہ تھا
گل سراپا گوش بنتے کیوں نہ سننے کے لئے
چہچہے بلبل کے گلشن میں ترا افسانہ تھا
دار پر چڑھ کر انا الحق جو کہا منصور نے
وہ بھی اک تیرا کرشمہ ہمت مردانہ تھا
ہم غلط فہمی سے سمجھے قتل کرنے کو عتاب
اور وہاں اک چھیڑ تھی اک ناز معشوقانہ تھا
سن لیے دو حرف جس نے ہو گیا سرمست عشق
چشم افسوں ساز کا افسوں مرا افسانہ تھا
وعظ کی مجلس میں بھی آئے تو یوں مستان عشق
مے کی بوتل تھی بغل میں ہاتھ میں پیمانہ تھا
جمگھٹے لیلی وشوں کے دیکھنے سے شہر میں
جا کے جنگل میں بسا مجنوں بڑا دیوانہ تھا
وصل ہوتا کس طرح خلوت کہاں تھی رات کو
پھول تھے نرگس کے رکھے شمع تھی پروانہ تھا
مزرع عالم میں مجھ سا سوختہ قسمت کہاں
جل گیا قسمت کا میری کھیت میں جو دانہ تھا
دیر کی تحقیر کر اتنی نہ اے شیخ حرم
آج کعبہ بن گیا کل تک یہی بت خانا تھا
آزما دیکھا اسے سو بار ہم نے اے امیرؔ
آشنا سے آشنا بیگانے سے بیگانہ تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.