اک عمر ہو گئی کہ اقامت سفر میں ہے
اک عمر ہو گئی کہ اقامت سفر میں ہے
نقشہ مگر وطن کا ابھی تک نظر میں ہے
جو خون ابل چلے وہ مری چشم تر میں ہے
جو داغ رنگ لائے وہ میری جگر میں ہے
دن رات یاد ہے در دندان یار کی
کشتی ہماری عمر کی آب گہر میں ہے
ہم ہیں برنگ لالہ ازل سے الم نصیب
جزو بدن ہے داغ جو اپنے جگر میں ہے
اے بحر حسن دیکھ تڑپ انتظار کی
مچھلی ہے مردمک جو مری چشم تر میں ہے
نیرنگیاں تصور کامل کی دیکھیے
تصویر یار دل میں ہے نقشہ نظر میں ہے
مرتا ہے اس پہ غیر بھی تو میں ہوں بے قرار
دشمن کے دل کا داغ بھی میرے جگر میں ہے
دنیائے بے ثبات میں کیا ہو ہمیں ثبات
جس گھر میں ہم مقیم وہ گھر ہی سفر میں ہے
قاتل ابھی سوار بھی گھر سے نہیں ہوا
کشتوں کا ڈھیر چار طرف رہ گزر میں ہے
رکھتا نہیں زمین پہ مارے خوشی کے پاؤں
شاید جواب خط کمر نامہ بر میں ہے
یارب امیرؔ کے بھی گناہوں سے درگزر
یہ بھی تو آخر امت خیرالبشر میں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.