آنکھ کھلتے ہی تھا اک جلوہ نظر کے سامنے
آنکھ کھلتے ہی تھا اک جلوہ نظر کے سامنے
کیا کہوں میں آگیا کیا کیا نظر کے سامنے
آدمی کو دیکھا جب ہنستا نظر کے سامنے
تھا سراپا نور کا پتلا نظر کے سامنے
آنکھ سے نکلا اور آ بیٹھا نظر کے سامنے
چھپ گیا نظروں ہی میں کیسا نظر کے سامنے
دیکھ لے وہ جس کو ہو چشم بصیرت غور سے
بہتا ہے اک نور کا دریا نظر کے سامنے
ہم نے جس پر جان دی اور ہم کو دی ہے جس نے جاں
دل کے اندر ہے وہ ہر دم یا نظر کے سامنے
جب مقید سے سوئے مطلق گئی اپنی نگاہ
جو کہ پایا تھا وہ سب کھویا نظر کے سامنے
اب جہاں میں کچھ نہیں ہے آرزو علویؔ مجھے
مرتے دم ہو صورت میرزا نظر کے سامنے
- کتاب : خمخانۂ ازلی (Pg. 137)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.