سوز دل چاہیے چشم نم چاہیے اور شوق طلب معتبر چاہیے
سوز دل چاہیے چشم نم چاہیے اور شوق طلب معتبر چاہیے
ہوں میسر مدینے کی گلیاں اگر آنکھ کافی نہیں ہے نظر چاہیے
ان کی محفل کے آداب کچھ اور ہیں لب کشائی کی جرأت مناسب نہیں
ان کی سرکار میں التجا کے لیے جنبش لب نہیں چشم تر چاہیے
اپنی روداد غم میں سناؤں کسے میرے دکھ کو کوئی اور سمجھے گا کیا
جس کی خاک قدم بھی ہے خاک شفا میرے زخموں کو وہ چارہ گر چاہیے
میں گدائے در شاہ کونین ہوں شیش محلوں کی مجھ کو تمنا نہیں
ہو میسر زمیں پر کہ زیر زمیں مجھ کو طیبہ میں اک اپنا گھر چاہیے
رونقیں زندگی کی بہت دیکھ لیں اب میں آنکھوں کا اپنی کروں گا بھی بھی
اب نہ کچھ گفتنی ہے نہ کچھ دیدنی مجھ کو آقا کی بس اک نظر چاہیے
ان نئے راستوں کی غلط روشنی ہم کو راس آئی ہے اور نہ راس آئے گی
ہم کو کھوئی ہوئی روشنی چاہیے ہم کو آئین خیرالبشر چاہیے
گوشہ گوشہ مدینے کا پر نور ہے سارا ماحول جلووں سے معمور ہے
شرط یہ ہے کہ ظرف نظر چاہیے دیکھنے کو کوئی دیدہ در چاہیے
مدحت سرور دو جہاں کے لیے صرف لفظ و بیاں کا سہارا نہ لو
فن شعری ہے اقبال اپنی جگہ نعت کہنے کو خون جگر چاہیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.