جلوۂ یار نے کچھ ایسی ادا پائی ہے
جلوۂ یار نے کچھ ایسی ادا پائی ہے
ہر جھلک ایک نیا دعویٰ یکتائی ہے
مر مٹے ہم وہ ابھی محو خود آرائی ہے
اس کے قربان جو خاموش تماشائی ہے
زخم دل ہو گئے پھر ان کی عنایت سے ہرے
میرے گلشن میں پھر اک تازہ بہار آئی ہے
مے ٹپکتی ہے نگاہوں سے میرے ساقی کی
چشم بد دور عجب مست نظر پائی ہے
بڑھ گئی چین جبیں سے میرے دل کی دھڑکن
ان کی خفگی میں بھی انداز مسیحائی ہے
لوگ منہ مانگی مرادوں کی دعا کرتے ہیں
ہم نے ہر چیز طلب سے بھی سوا پائی ہے
مٹ بھی جائے یہ کہیں طالب و مطلوب کا فرق
اس کے آگے نہ تمنا نہ تمنائی ہے
آپ کے جتنے گلے ہیں میرے سر آنکھوں پرقطرہ
بات پرقطرہ بات مجھے بھی کوئی یاد آئی ہے
تیری خاطر کہوں یا پاس ادب سے میں نے
عمر بھر تہمت ہستی کی سزا پائی ہے
عشق میں چل نہیں سکتی ہے سمجھ بوجھ کی بات
تیرے دیوانے کو اب اتنی سمجھ آئی ہے
آپ کے حسن کی ہر وقت نئی شان کھلی
جب کبھی دل نے کوئی چوٹ نئی کھائی ہے
آپ سے مجھ کو اگر ربط نہیں ہے کوئی
یہ کشش کیا ہے یہاں تک جو مجھے لائی ہے
دو حیاتوں کے ہے مابین اجل کا وقفہ
موت سستائی ہوئی زیست کی انگڑائی ہے
اپنے قدموں سے جدا کر کے تماشہ نہ بنا
تیرا کاملؔ ترا بندہ ترا شیدائی ہے
- کتاب : سرودِ روحانی (Pg. 201)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.