عالم ہو یہ مستی کا جب سجدہ میں سر جائے
عالم ہو یہ مستی کا جب سجدہ میں سر جائے
مستوں کی بلا جانے شام آئے سحر جائے
یہ دیر و حرم والے کیوں راہ میں لڑتے ہیں
جب ایک ہی منزل تک ہر راہ گزر جائے
یہ دل کا سفینہ بھی پروردۂ طوفاں ہے
ٹکرا کے تلاطم سے ڈوبے تو ابھر جائے
تقدیر چمک اٹھے ان خاک نشینوں کی
تو جن کو محبت سے ٹھکرا کے گزر جائے
بیٹھے جو ترے در پر منہ موڑ کے دنیا سے
وہ اٹھ کے ترے در سے جائے تو کدھر جائے
آنسو بھی ہیں شبنم بھی کلیاں بھی ہیں تارے بھی
سب کچھ ہے نظاروں تک گر تیری نظر جائے
جاویدؔ کہی تم نے اشعار کے پردے میں
وہ بات جو نشتر سی ہر دل میں اتر جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.