جن راتوں میں نیند اڑ جاتی ہے کیا قہر کی راتیں ہوتی ہیں
دروازوں سے ٹکرا جاتے ہیں دیواروں سے باتیں ہوتی ہیں
آشوب جدائی کیا کہئے انہونی باتیں ہوتی ہیں
آنکھوں میں اندھیرا چھاتا ہے جب اجیالی راتیں ہوتی ہیں
جب وہ نہیں ہوتے پہلو میں اور لمبی راتیں ہوتی ہیں
یاد آ کے ستاتی رہتی ہے اور دل سے باتیں ہوتی ہیں
گھرگھر کے بادل آتے ہیں اور بے برسے کھل جاتے ہیں
امیدوں کی جھوٹی دنیا میں سوکھی برساتیں ہوتی ہیں
امید کا سورج ڈوبا ہے آنکھوں میں اندھیرا چھایا ہے
دنیائے فراق میں دن کیسا راتیں ہی راتیں ہوتی ہیں
طے کرنا ہیں جھگڑے جینے کے جس طرح بنے کہتے سنتے
بحروں سے بھی پالا پڑتا ہے گونگوں سے بھی باتیں ہوتی ہیں
آنکھوں میں کہاں رس کی بوندیں کچھ ہے تو لہوں کی لالی ہے
اس بدلی ہوئی رت میں اب تو خونیں برساتیں ہوتی ہیں
قسمت جاگے تو ہم سوئیں قسمت سوئے تو ہم جاگیں
دونوں ہی کو نیند آئے جس میں کب ایسی راتیں ہوتی ہیں
جو کان لگا کر سنتے ہیں کیا جانیں رموز محبت کے
اب ہونٹ نہیں ہلنے پاتے ہیں اور پہروں باتیں ہوتی ہیں
ہنسنے میں جو آنسو آتے ہیں نیرنگ جہاں بتلاتے ہیں
ہر روز جنازے جاتے ہیں ہر روز براتیں ہوتی ہیں
جو کچھ بھی خوشی سے ہوتا ہے یہ دل کا بوجھ نہ بن جائے
پیمان وفا بھی رہنے دو سب جھوٹی باتیں ہوتی ہیں
ہمت کس کی ہے جو پوچھے یہ آرزوؔ سودائی سے
کیوں صاحب آخر اکیلے میں یہ کس سے باتیں ہوتی ہیں
Videos
This video is playing from YouTube
نا معلوم
مأخذ :
- کتاب : سرودِ روحانی (Pg. 233)
- اشاعت : Second
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.