کون بیٹھا ہے اب اندیشۂ فردا لے کر
کون بیٹھا ہے اب اندیشۂ فردا لے کر
مطمئن ہوں تری نسبت کا سہارا لے کر
اپنی قدرت کے تماشے کبھی دکھلاتے ہیں
عبد قادر کے مسمیٰ کا وہ پردا لے کر
جاننے والی نگاہوں نے مجھے جان لیا
کھو گیا میں جو کبھی نام کسی کا لے کر
داغ دل زخم جگر دیدۂ خون ناب فشاں
ہم بھی آئے ہیں در یار سے کیا کیا لے کر
شکوہ سنجی یہ مزے کی ہے کہ ہم در سے ترے
آئے ہیں تنگیٔ دامن ہی کا شکوا لے کر
ہر مصیبت سے ہر اک فکر سے ہر آفت سے
چھٹ گئے ہم تو فقط نام تمہارا لے کر
کس پہ احساں شہ جیلاں کا نہیں ہے کاملؔ
پلتے آئے ہیں سبھی ان کا اتارا لے کر
- کتاب : وارداتِ کامل (Pg. 64)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.