ہمارے خاکے اڑا اڑا کر وہ اپنا نقشہ جما رہے ہیں
ہمارے خاکے اڑا اڑا کر وہ اپنا نقشہ جما رہے ہیں
مجال کس کی جو ان سے پوچھے حضور یہ کیا بنا رہے ہیں
محبت ایسی بری بلا ہے فریب نظارہ کھا رہے ہیں
ہم ان کے دھوکوں کو جان کر بھی پھر ان کے دھوکے میں آ رہے ہیں
نئے نئے داغ دے کے دل کو نئے نئے گل کھلا رہے ہیں
غریب عاشق کا دخل ہی کیا وہ اپنے گھر کو سجا رہے ہیں
وہ ہم پہ مشق ستم سے اپنے ہمارا دل آزما رہے ہیں
کرم کا مصدر بنے ہوئے ہیں ستم کا مرکز بنا رہے ہیں
ہمارا کیا حال پوچھتے ہو تڑپ رہے تلملا رہے ہیں
نفس نفس سوز مستقل ہے مزے محبت کے آ رہے ہیں
وہی نگاہوں میں بس رہے ہیں وہی تصور پہ چھا رہے ہیں
کھلی ہوں یا بند میری آنکھیں وہی کھڑے مسکرا رہے ہیں
نظر اٹھاتے ہیں جس طرف بھی وہی نظر ہم کو آ رہے ہیں
وجود ہر شئے ہے جن کے دم سے انہیں کو ہر شئے میں پا رہے ہیں
مجسم اک شعر و نغمہ بن کر جو زیر لب گنگنا رہے ہیں
وہی ہیں فکر و نظر کا مرکز انہیں کے ہم گیت گا رہے ہیں
ہے جس سے میری حیات روشن نہیں نہیں کائنات روشن
وہی تو ہے شمع بزم عالم اسی سے ہم لو لگا رہے ہیں
دیا ہے دم جس کی ہر ادا پر میں جس سے مجبور ہوں وفا پر
جناب واعظ مجھے اسی سے خبر نہیں کیوں ڈرا رہے ہیں
کسی کی یہ شوخیاں تو دیکھو یہ ہم سے ہمدردیاں تو دیکھو
یہ جو آگ دل میں دبی ہوئی تھی اسے ہوا دے کے جا رہے ہیں
یہ کیوں سویرا سا ہو چلا ہے نقاب کس نے الٹ دیا ہے
یہ چاند کیوں پڑ گیا ہے پھیکا ستارے کیوں جھلملا رہے ہیں
خبر نہیں کس نے فتح پائی شکست حصے میں کس کے آئی
ہماری دنیائے دل بدل کر وہ جانے کیوں مسکرا رہے ہیں
وہی تو مقصود دل ہیں کاملؔ وہی تو ہیں زندگی کا حاصل
وہ میری دنیائے آرزو میں شریک ہر مدعا رہے ہیں
- کتاب : وارداتِ کامل (Pg. 144)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.