نیست سے پہلے ہوا جو نیست ہستی ہے یہی
پھنس گیا گر دام ہستی میں تو پستی ہے یہی
اپنی صورت کو مٹا کر صورت معنی کو دیکھ
حق پژوہی ہے یہی اور حق پرستی ہے یہی
ہستی مطلق یہی ہے یہ جو ہستی ہے تری
ہو گیا جب تو فنا تب عین ہستی ہے یہی
توڑ کر اس ساغر ہستی کو پی صہبائے عشق
مشرب پیر مغاں میں عین مستی ہے یہی
نیست ہو کر کیوں نہ رکھا پاؤں راہ عشق میں
نیستی ہستی پہ سالک کی برستی ہے یہی
ہستی موجود کے باعث ہوئے محبوب ہم
فی الحقیقت جان لے راز الستی ہے یہی
ذات واجب اور غیب محض کے مظہر ہیں ہم
ڈھونڈھتے اس کو کہاں ہو اس کی بستی ہے یہی
منہدم کر اے خلیلؔ اپنی خودی کا بت کدہ
بت شکستن کا کمال تیز دستی ہے یہی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.