حال میں اپنے مست ہوں غیر کا ہوش ہی نہیں
حال میں اپنے مست ہوں غیر کا ہوش ہی نہیں
رہتا ہوں میں جہاں میں یوں جیسے یہاں کوئی نہیں
کوئی مزا مزا نہیں کوئی ہنسی ہنسی نہیں
تیرے بغیر زندگی موت ہے زندگی نہیں
اس دل زار سے مفر عشق میں جیتے جی نہیں
رونا ہے مجھ کو عمر بھر غم مرا عارضی نہیں
پیر مغاں کا دم کہاں اس کی وہ بزم جم کہاں
بادہ نہیں تو ہم کہاں زیست یہ زیست ہی نہیں
جائیں بہ چشم نم کہاں روئیں اب اپنا غم کہاں
پہلے سے اب کرم کہاں ایسا تو اب کوئی نہیں
ہجر کی شب عجب ہے شب حال یہ کیا ہے للعجب
تارے ہیں روشنی نہیں چاند ہے چاندنی نہیں
شیشہ ہے جام ہے نہ خم اصل تو رونقیں ہیں گم
لاکھ سجا رہے ہو تم بزم ابھی سجی نہیں
کتنا ہی تو بڑا سہی یہ بھی ہے زاہد آگہی
سمجھے جو خود کو منتہی وہ ابھی مبتدی نہیں
حسن کی بارگاہ ہے سہل کوئی نباہ ہے
آہ بھی اک گناہ ہے عشق بھی دل لگی نہیں
بیٹھا ہوں میں جھکائے سر نیچی کیے ہوئے نظر
بزم میں سب سہی مگر وہ جو نہیں کوئی نہیں
ان کی محبت آہ میں شوق بھری نگاہ میں
یعنی ابھی ہے راہ میں دل میں ابھی بسی نہیں
اے مرے باغ آرزو کیسا ہے باغ ہائے تو
کلیاں تو گو ہیں چار سو کوئی کلی کھلی نہیں
دل میں لگا کے ان کی لو کر دے جہاں میں نشر ضو
شمعیں تو جل رہی ہیں سو بزم میں روشنی نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.